”کیا ہم غلام ہیں“ جسٹس مظاہر اور وکیل امان اللہ میں جھڑپ
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ میں وکیل قتل کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف درخواست پر سماعت جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔ مقدمہ کی سماعت کا آغاز ہوا تو شکایت کنندہ کے وکیل امان اللہ کنرانی نے ججز پر اعتراض اٹھا دیا، اور کہا کہ حسن اظہر رضوی کیخلاف سندھ ہائی کورٹ میں کیس زیرالتوا ہے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے کہ آپ کردار کشی کر رہے ہیں، میرے خلاف کون سا مقدمہ زیرالتوا ہے۔ امان اللہ کنرانی نے کہا کہ جج بنیں گے تو دلائل دوں گا، آپ نے فریق بننا ہے تو پھر کچھ اور بولوں گا۔ جسٹس مظاہر نقوی نے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا آپ کو شکایت کنندہ نے یہ ہدایات دیکر بھیجا ہے؟، آپ کو اجازت کس نے دی اس طرح سے ہمارے بارے بات کریں؟۔ جسٹس یحیی آفریدی نے وکیل سے کہا کہ اگر آپ کو ججز پر کوئی اعتراض تھا تو تحریری طور پر جمع کرانا چاہیے تھا، آپ کو روسٹرم پر آ کر ایسی باتیں نہیں کرنی چاہیے تھیں۔ جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ آپ نے جو الزامات لگائے اس کا جواب دینا ہوگا، ہم کمزور نہیں ہیں۔ وکیل امان اللہ کنرانی نے جواباً کہا کہ جج صاحب آپ چلائیں مت، میں آپ کا غلام نہیں ہوں۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کیا ہم غلام ہیں؟۔ فوری طورپر عدالت سے غیرمشروط معافی مانگیں۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ آپ کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں گے۔ جس پر وکیل امان اللہ کنرانی نے عدالت سے معافی مانگ لی۔ جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مظاہر نقوی نے معافی قبول کرنے سے انکار کردیا۔ جس پر امان اللہ کنرانی نے کہا کہ ہاتھ جوڑ کر اپنے الزامات واپس لیتا ہوں۔ جسٹس یحیٰی آفریدی نے وکیل سے کہا کہ میں آپ کی معافی قبول کر رہا ہوں۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے کہ پہلے شواہد دیں کہ میرے خلاف کوئی مقدمہ یا ایف آئی آر ہے۔ عدالت نے امان اللہ کنرانی کی معافی پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت میں مو¿قف پیش کیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو دوسرے مقدمے میں گرفتار کرلیا گیا ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو وکیل قتل کیس میں گرفتار نہ کرنے کا حکم برقرار رہے گا۔ عدالت نے کیس کی سماعت 24 اگست تک ملتوی کردی۔
سپریم کورٹ جھڑپ