نماز میں خشوع وخضوع (۱)
طمانیتِ قلب اور خشوع و خضوع کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کو نماز سے والہانہ لگاﺅ محبت اور عشق ہو۔نماز مومن کے لیے معراج کا درجہ رکھتی ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ سے براہ راست ہم کلام ہونے کی سعادت حاصل ہو تی ہے۔ حضور نبی کریمﷺ کی نماز میں اتنی عاجزی اور خشوع و خضوع ہوتا کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔خشوع نماز کی روح ہے اور حضور نبی کریمﷺ سے زیادہ خاشع کون ہو سکتا ہے ؟ حضرت عبداللہ اپنے والد حضرت شخیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں ایک روز نبی اکرم ﷺ کے ہاں گیا اس وقت حضور ﷺ نماز پڑھ رہے تھے اور فرط گریہ سے حضور ﷺ کے اندر سے ایسی آوزآ رہی تھی جیسے دیگ جوش کرنے کی آواز۔نماز کا وقت آتا تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چہرے کا رنگ متغیر ہو جاتا اور آپ پر لرزہ طاری ہو جاتا۔ ایک بار ان سے پوچھا گیا کہ اے امیر المو منین آپ کا یہ حال کیا ہو جاتا ہے تو آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی اس امانت کی ادائیگی کا وقت ہے جسے اللہ تعالی نے آسمان و زمین اور پہاڑ پر پیش کیا تو ان سب نے اس بار کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور انسان نے اسے اٹھا لیا۔
حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا میری اتنی عمر اسی تمنا میں گزر گئی کہ کوئی نماز اس خشوع کے ساتھ ادا کروں کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قابل قبول ہو مگر اب تک ادا نہ ہو سکی۔ سورة مومن میں اللہ تعالیٰ خشوع و خضوع کے ساتھ نماز پڑھنے والوں کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے : ” بے شک دونوں جہاں میں بامراد ہو گئے ایمان والے ، وہ ایمان والے جو اپنی نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں “۔آیت میں ان مومنوںکو کامیابی کی نوید سنائی گئی ہے جو اپنی نمازوں میں خشوع کرتے ہیں۔ علماءحق خشوع کا مفہوم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نماز میں خشوع کا مطلب یہ ہے کہ انسان ساری توجہ نماز میں لگا دے۔ اللہ تعالی کے علاوہ ہر کسی سے منہ پھیر لے اور وہ اپنی زبان سے جو تلاوت اورذکر کرتا ہے ان کے معانی میں غور و تدبر کرے مفسرین فرماتے ہیں کہ نماز میں خشوع و خضوع یہ ہے کہ اس میں دل لگا ہو اور دنیا سے توجہ ہٹی ہو اور نظر جائے نماز سے باہر نہ جائے اور گوشہ چشم سے کسی طرف نہ دیکھے اور کوئی عبث کام نہ کرے اور کوئی کپڑا شانوں پر نہ لٹکائے اس طرح کہ اس کے دونوں کنارے لٹکتے ہوئے اور آپس میں ملے ہوئے نہ ہوں۔