• news

سپریم کورٹ کا فیصلہ۔ اختیارات کے تنازعہ کا نیا پنڈورا بکس

چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بنچ نے جون میں محفوظ کیا گیا فیصلہ صادر کرتے ہوئے گزشتہ روز نظرثانی کی درخواست کے دائرہ کار کو بڑھانے سے متعلق ریونیو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ مجریہ 2023ء کو آئین سے متصادم قرار دیکر کالعدم کردیا۔ فاضل بنچ نے اپنے فیصلہ میں قرار دیا کہ پارلیمنٹ نے اختیارات سے تجاوز کیا ہے جو آئین سے متصادم ہے۔ پارلیمنٹ ایسی قانون سازی کا اختیار نہیں رکھتی۔ فاضل عدالت کا یہ فیصلہ قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد جاری کیا گیا۔ بنچ کے دوسرے دو ارکان میں مسٹر جسٹس اعجاز الحسن اور مسٹر جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔ اسی فاضل بنچ کی جانب سے اور پانچ رکنی بنچ میں انہی فاضل ججوں کی جانب سے اتحادیوں کی حکومت کے اقدامات،  انکی جانب سے پارلیمنٹ میں کی گئی قانون سازی اور الیکشن کمیشن سے متعلق معاملات کیخلاف فیصلے صادر کئے گئے اور پی ٹی آئی قائد کے ایمائ￿  پر پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 دن کے اندر انتخابات کے معاملہ میں حکومت اور ریاستی اداروں کو ٹف ٹائم دیا گیا جبکہ فاضل چیف جسٹس اپنے ازخود اختیارات کے تحت متعلقہ حکومتی اقدامات کا نوٹس لے کر اپنی سربراہی میں یہی تین رکنی بنچ تشکیل دیتے رہے۔ اس پر سپریم کورٹ کے اندر سے بھی برادر ججوں کی جانب سے چیف جسٹس کے ازخود اختیارات پر سخت ردعمل سامنے آیا اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے ایک بنچ نے چیف جسٹس کے ازخود اختیارات کی بنیاد پر عدالت عظمیٰ کی متعلقہ مقدمات میں  کارروائی کالعدم بھی قرار دے دی جس پر عدالت عظمیٰ کے اندر تقسیم پیدا ہونے کا تاثر اجاگر ہوا۔ اسی طرح عدالت عظمیٰ کے 9 رکنی اور سات رکنی بنچ میں شامل فاضل ججوں مسٹر جسٹس یحییٰ آفریدی‘ مسٹر جسٹس اطہرمن اللہ اور دوسرے فاضل ججوں نے بھی چیف جسٹس کے ازخود اختیارات کے معاملہ پر تحفظات کا اظہار کیا اور اپنے اختلافی نوٹ تحریر کئے اور سات رکنی بنچ کے حوالے سے اسکے اکثریتی فیصلہ پر بھی چار‘ تین کا تنازعہ پیدا ہوا۔ 
اس حوالے سے وکلاء تنظیموں میں بھی تقسیم پیدا ہوئی‘ پاکستان بار کونسل اور متعدد بار ایسوسی ایشنوں کی جانب سے چیف جسٹس کے ازخود اختیارات اور مرضی کا بنچ تشکیل دینے کو چیلنج کیا گیا جبکہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اس معاملہ میں چیف جسٹس کے ساتھ کھڑی نظر آئی۔ اسی فضا میں پارلیمنٹ میں اتحادیوں کی حکومت بھی ڈٹ کر کھڑی ہو گئی جس نے عدالتی اصلاحات بل کی شکل میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں ایک ترمیمی ایکٹ کی منظوری حاصل کی جس کے تحت کسی معاملہ کا ازخود نوٹس لینے کے اختیارات عدالت عظمیٰ کے تین سینئر فاضل ججوں پر مشتمل کمیٹی کو تفویض کردیئے گئے۔ فاضل چیف جسٹس نے اس پر عدالت عظمیٰ کا آٹھ رکنی بنچ تشکیل دیکر متذکرہ ترمیمی ایکٹ کیخلاف حکم امتناعی جاری کر دیا اور ایکٹ پر عملدرآمد روک دیا۔ اس پر ریاستی اداروں مقننہ‘ عدلیہ اور انتظامیہ میں باہم ٹکرائو کی فضا ہموار ہوتی نظر آئی۔ صدر مملکت نے پارلیمنٹ کے منظور کردہ ایکٹ پر دستخط کر دیئے اور اتحادیوں کی حکومت نے آئین کی دفعہ 62 اور اسکی ذیلی دفعات کے تحت سپریم کورٹ کی جانب سے نااہلیت کی سزا کا دورانیہ پانچ سال سے تاحیات کرنے کے فیصلہ کیخلاف نظرثانی کا حق حاصل کرنے کیلئے ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ بھی پارلیمنٹ سے منظور کرالیا گیا جس کے تحت نوازشریف اور جہانگیر ترین کو بھی اپنی تاحیات نااہلیت کیخلاف سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کرنے کا حق مل گیا اور ساتھ ہی ساتھ اس ایکٹ کے تحت تاحیات نااہلیت کی سزا کو بھی پانچ سال کی نااہلیت میں تبدیل کر دیا گیا۔ 
اس ایکٹ کیخلاف ایک شہری کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں کیس دائر ہوا اور چیف جسٹس کی سربراہی میں فاضل تین رکنی بنچ نے دو ماہ قبل جون میں اسکی سماعت کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا جو گزشتہ روز جاری کیا گیا۔ اس فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کی متذکرہ قانون سازی اسکے اختیارات سے متجاوز ہے اور سپریم کورٹ رولز میں تبدیلی عدلیہ کی آزادی کے منافی ہے۔ 
اگرچہ اس وقت اسمبلی کا وجود نہیں ہے تاہم سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کی جانب سے پارلیمنٹ کے ذریعے ہونیوالی قانون سازی کے کالعدم قرار پانے سے لازمی طور پر دو ریاستی اداروں عدلیہ اور پارلیمنٹ میں ٹکرا? کا دوبارہ امکان پیدا ہو گیا ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے بھی اسی تناظر میں سپریم کورٹ کے فیصلہ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسمبلی کی مدت پوری ہونے کے بعد فیصلہ دینا افسوسناک ہے۔ انکے بقول چند ججز نے جان بوجھ کر پارلیمنٹ سے محاذآرائی کی۔ اسی طرح سابق وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بھی گزشتہ روز اپنے بیان میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ پارلیمنٹ کے اختیارات میں مداخلت کوئی اچھی روایت نہیں۔ 
ہمارا اصل المیہ ہی یہ ہے کہ آئین میں ریاستی اداروں کے اختیارات اور ذمہ داریاں متعین ہونے کے باوجود متعلقہ اداروں کی جانب سے ان اختیارات اور ذمہ داریوں کی  پاسداری نہیں کی جاتی اور اکثر اوقات اختیارات سے تجاوز ہوتا نظر آتا ہے جس سے اداروں میں ٹکرائوکا تاثر اجاگر ہوتا ہے تو پورا سسٹم دائو پر لگ جاتا ہے۔ اگر ہر ریاستی ادارہ آئین میں متعین اپنے اختیارات کی حدود میں رہے اور ایک دوسرے کے معاملہ میں مداخلت کی روش اختیار نہ کی جائے تو سسٹم کو اتھل پتھل کرنے کی ماضی جیسی کوئی سوچ ہی پیدا نہ ہو۔ بدقسمتی سے ہماری سیاست میں ایک دوسرے کی قیادتوں کے ساتھ نفرت و عقیدت کے در آنے والے جذبات نے سیاست کو ہی نہیں‘ عدلیہ اور دوسرے ریاستی اداروں کو بھی متاثر کیا چنانچہ عدل گستری میں انصاف کا تصور بھی قبولیت اور ناقبولیت والے جذبات میں الجھ کر رہ گیا جس کا اندازہ ملک کے اعلیٰ عدالتی ادارے کے اندر بھی پیدا ہونیوالی تقسیم سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ جب کسی مخصوص سوچ کے تحت کوئی فیصلہ صادر کرنے کیلئے کسی مناسب وقت کا انتظار کیا جائے یا کوئی انتظامی فیصلہ کسی مخصوص شخصیت کے سبکدوش ہونے تک روک لیا جائے تو کسی معاشرے کی ٹوٹ پھوٹ کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے۔ بدقسمتی سے آج ہم ادارہ جاتی سطح پر اسی گراوٹ کا شکار ہوتے نظر آرہے ہیں جس میں آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ 
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آئین اور قانون کی منظوری‘ آئین میں ترمیم اور کسی قانون کی تحریف یا اس میں ردوبدل کا اختیار صرف مقننہ (پارلیمنٹ) کو حاصل ہے۔ انتظامیہ اور عدلیہ نے پارلیمنٹ کے منظور کردہ قوانین پر یا آئین کی شقوں پر انکی روح کے مطابق عملدرآمد کرانا ہوتا ہے۔ اگر عدلیہ یا انتظامیہ اپنی یہ آئینی ذمہ داری ادا کرنے کے بجائے پارلیمنٹ کا قانون و آئین سازی کا اختیار ہی سلب کرنا شروع کر دے تو آئین و قانون کی عملداری کا تقاضا کیونکر پورا ہو پائے گا۔ یقیناً بہتر گورننس کیلئے اداروں کے اپنے رولز اور قوانین بھی ہوتے ہیں تاہم یہ رولز اور قوانین وضع کرنے کا اختیار بھی اسکے مجاز فورم پارلیمنٹ کا ہے۔ آئین نے سپریم کورٹ کو آئین کے شارع کی حیثیت دی ہے چنانچہ آئین کی کسی شق میں کوئی ابہام محسوس ہو تو سپریم کورٹ اسکی وضاحت کرتی ہے مگر سپریم کورٹ کو خود آئین اور قانون وضع کرنے کا قطعاً اختیار نہیں۔ اگر ادارہ جاتی سطح پر آئین میں تفویض کردہ اپنے اختیارات پر ہی صادر کرلیا جائے تو کسی قسم کا تنازعہ ہی پیدا نہ ہو۔ سپریم کورٹ کے گزشتہ روز کے فیصلہ سے تو معاملات سلجھنے کے بجائے مزید الجھائو کی جانب جاتے نظر آرہے ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن