پاکستان خدا حافظ کیوں؟
لاریب فیہ کہ وطن عزیز پاکستان اس وقت معاشی، سیاسی، سماجی لحاظ سے مشکل ترین فیز میں ہے۔ سیاست دانوں کی آڈیو ویڈیو لیک سے ان کی قلعی کھل کر سامنے آ چکی ہے۔ ہر ادارہ متنازع بنا ہوا ہے۔ ان حالات میں شعوری طور پر جو طبقہ متاثر ہو رہا ہے وہ نوجوان ہیں۔ نوجوانوں کی کثیر تعداد ملک چھوڑ کر جا رہی ہے۔
بیورو آف امیگریشن کے حالیہ اعداد وشمار کے مطابق اس سال بہتر مستقبل کے لئے ملک چھوڑ کر جانے والوں کی تعداد میں افسوسناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ تارکین وطن میں تعلیم یافتہ افراد جیسے ڈاکٹر، انجینئرز‘ فارماسسٹ، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ایکسپرٹ ، اکاؤنٹنٹ، قانون دان وغیرہ شامل ہیں۔ بیرون ملک جانے والوں سے اگر پوچھا جائے کہ وہ کیوں جا رہے ہیں۔۔ قارئین وہ ایسے خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور ہمارے ملک کے حالات کی ایسی ڈراؤنی تصویر کشی کرتے ہیں کہ جیسے ان کا دم گھٹ رہا ہے۔
کسی کو معیشت کی زبوں حالی یا افراط زر کی بڑھتی شرح جیسے مسائل کا سامنا ہے تو کسی کو سیکیورٹی چیلنجز درپیش ہیں۔ متعدد نوجوان یہ سمجھتے ہیں کہ جتنی مہارت ان میں موجود ہے اسکا آؤٹ پٹ انہیں نہیں ملتا۔ ان کی عزت ہی نہیں ہے۔
افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں" برین ڈرین" ٹرینڈ کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ کریم آف سوسائٹی یعنی ملک کے ذہین پروفیشنلز بلند معیار زندگی کی خاطر دوسرے ملکوں کی شہریت لیتے ہیں یا پھر دوسرے درجے کا شہری بننا قبول کرتے ہیں۔ جس کی بنیادی وجہ ہینڈ سم آمدن کے ساتھ بچوں کا محفوظ مستقبل ، انٹرنیشنل سفری سہولیات وغیرہ شامل ہیں۔ سوشل سیکیورٹی کا مسئلہ سب سے زیادہ سامنے آ رہا ہے۔ سندھ کے اکثر نوجوان جب پڑھ لکھ جائیں تو وہ وڈیروں کے ڈر سے خود کو غیر محفوظ گردانتے ہوئے بیرون ملک کوچ کرنے کو غنیمت سمجھتے ہیں۔
خیبر پختونخوا میں خواتین صنفی بنیادوں پر تفریق کے سبب باہر جانے کو ترجیح دیتی ہیں۔ پنجاب کے معاشی حالات نوجوانوں کو دلبرداشتہ کر رہے ہیں۔ ہائر ڈگری کے ہوتے ہوئے کم اجرت پر نوکریوں نے نوجوانوں کو قنوط زون میں داخل کر دیا ہے۔ نتیجتاً سٹریٹ کرائمز میں ریکارڈ اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ سوچ کر روح کانپ جاتی ہے کہ مجبوری کے سبب گریجوایٹ لڑکے چوری کی وارداتوں میں ملوث پائے جا رہے ہیں۔ بلوچستان میں نوجوانوں کو مذکورہ بالا تمام تر مسائل کا سامنا ہے۔
حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ نوجوانوں "ڈنکی" کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہیں یہ جانتے ہوئے کہ اس سستے اور شارٹ کٹ راستے کے ذریعے آپ کے مرنے کے 90 سے 95 فیصد امکانات ہوتے ہیں۔ بعض بے رحم انسانی سمگلرز، ایجنٹس ان نوجوانوں کو غیر قانونی راستوں سے کنٹینرز میں بھر کر حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔ بعض نوجوان جہان فانی سے کوچ کر جاتے ہیں بعض جیلوں میں سزا کاٹ رہے ہوتے ہیں اور جو یورپ پہنچ جاتے ہیں انہیں ویزہ، جیل، زبان، اسائلم، زبان، مناسب روزگار جیسے مسائل گھیر لیتے ہیں۔
گھمبیر صورتحال میں نوجوانوں کو صبر و ہمت سے کام لینا ہوگا کیونکہ ملک کا مستقبل نوجوان سے ہی جڑا ہے۔ ملک کی خاطر آپ کو ذمہ داریاں سنبھالنی ہونگی۔۔ کیا باہر ممالک میں مسائل نہیں ہونگے۔۔ اپنی قابلیت اور ہنر مندی سے ملک وقوم کو براہ راست فائدہ پہنچانے کی بجائے دنیا کی دیگر اقوام کی خدمت کے لیے چل نکلنا کہاں کی دانشمندی ہے۔ ؟؟؟
مثال کے طور پر اگر ان ممالک میں دھن دولت کے ڈھیر لگا کر نئے سرے سے زندگی کا آغاز کیا جائے اور ان ممالک میں کبھی ایسے حالات آ جائیں کہ غیر ملکی شہریوں کو سرزمین سے نکلنے کے آرڈز صادر کر دئیے جائیں تو آپ پھر کہاں جائیں گے ؟۔ مانا کہ بیرون ممالک روزگار اچھا میسر آتا ہے لیکن اس کے بدلے پیاروں سے دوری اور تنہائی کی صعوبتیں بھی آپ کو جھیلنا پڑتی ہیں۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان نے ہمیں کیا دیا؟۔
شافی جواب تو یہ ہے کہ پاکستان نے آپ کو پہچان دی ہے۔ یقین کیجئے کہ غیر ملکی باشندے آپ کو وہ عزت نہیں دیتے جو اپنے ملک میں حاصل ہے۔ وہ محاورہ تو سنا ہی ہوگا کہ دور کے ڈھول سہانے۔ جب بیرون ممالک میں مصیبتیں ون بائی ون کرکے آتی ہیں تو ڈھارس بندھانے والا کوئی نہیں ہوتا۔پردیس آخر پردیس ہوتا ہے۔
اس وقت حالات آپ کو مایوس کر رہے ہیں لیکن یہ دیس ہمارا ہے اسے ہم نے سنوارنا ہے۔جس رفتار اور تعداد سے لوگ پاکستان چھوڑ کر جا رہے ہیں اگر دنیا کے ممالک ویزوں کے حصول کو آسان کر دیں تو خدشہ ہے کہ پاکستان میں صرف آباؤ اجداد کی قبریں رہ جائیں گی۔ اللہ کرے کہ پاکستان میں وہ بہار آئے کہ بیرون ملک سے ذیادہ اپنے پیارے وطن میں روزگار کے مواقع ملیں۔ (پاکستان زندہ باد)
٭…٭…٭