اگست آزادی جاوید طفیل اور ضیا الحق
اس برس اگست نے خوشی اور بے چینی کے لمحات کو گڈ مڈ کر دیا ہے اور مہنگائی سیاسی اتھل پتھل خصوصا 9مئی کے پس منظر میں تحریک انصاف کی قیادت کیخلاف کریک ڈائون اور اب اتحاد ی حکومت کے خاتمے اور عبوری حکومت کے قیام کے بعد اس کے مثبت اور منفی امکانات نے دلوں کی دھڑکنیں تیز کئے رکھی ہیں اور اب اتحادی حکومت کے بعد نگران دور حکومت کا آغاز ہونا ہے۔ یہ مہینہ بر صغیر میں ایک نئی مملکت ایک نعمت کے مسلمانوں کے مقدر بننے کا مہینہ بھی ہے اور اسی مہینے سے محمد طفیل نقوش اور تاریخ ساز جریدے نقوش کے وارث جاوید طفیل ڈاکٹر اختر شمار قائم نقوی جیسے اہم ادبی چہروں اورجنرل ضیاالحق سمیت کئی مشہور شخصیتوں کی برسی کی یادیں بھی وابستہ ہیں۔
بلا شبہ 14 اگست ہمیں یاد دلاتا ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے ہندوستان کی آزادی کے موقع پر ہندو کی غلامی سے بچنے کیلئے آزاد ملک حاصل کیا تاکہ ہمیں حقوق ملیں سچی آزادی ملے۔ گزشتہ برس اسی آزادی کی بحث میں گزرا۔ ایک طرف تحریک انصاف کے قائد کا موقف تھا کہ ہمیں آزادی کے لئے ایسی خارجہ پالیسی اپنانی چاہئیے کہ ہم روس اور ایران کے وسائل سے امریکہ کے دبائو کے بغیر فائدہ اٹھا سکیں اوربھارت کی طرح امریکہ اورروس چین سے ایک ساتھ فائدہ اٹھائیں۔
دوسری طرف وفاق میں حکمران اتحاد کے راہنما بھی یہ اعلان کرتے نظر آتے رہے کہ وہ پاکستان کی ترقی اور آزادی کے لئے سار ے فورموں سے فائدہ اٹھانے کی پالیسی کو اہم سمجھتے ہیں اور امریکہ سمیت سب سے تعلقات اچھے رہنے چاہئیں۔ بہر حال حقیقت تو یہی ہے کہ اس وقت پاکستان آزادی کے حوالے سے بحثوں کے دائرے میں ہے۔
ابھی تک پائوں سے چمٹی ہیں زنجیریں غلامی کی
دن آ جاتا ہے آزادی کا آزادی نہیں آتی
بھارت سمیت تمام حریف ہر فورم پر پاکستان کو نیچا دکھانے میں مصروف ہیں۔ اسی حوالے سے گزشتہ ہفتے آزاد ویلفیئر فائونڈیشن لاہور کے ایک اجلاس میں پاکستان مزدور محاز کے سیکرٹری جنرل شوکت چوہدری نے کھل کر آزاد پاکستان کی حقیقت پر بات کی ان کا کہنا تھا کہ جب تک پاکستان انرجی اور معیشت کے حوالے سے آزاد نہیں ہوگا تو حقیقی آزادی کا تصور محال ہے پاکستان تو اپنے پڑوسی برادر اسلامی ملک ایران سے معاہدے کے باوجود تیل اور گیس حاصل نہیں کرسکا اس لئے کہ امریکہ نے منع کر دیا تھا اسی طرح وقت پر روس سے سستا تیل اور آٹا نہیں لے سکا بلکہ اسی حوالے سے تحریک انصاف کی حکومت کو ووٹ آف نو کانفیڈینس کی بنیاد پر ختم کر دیا گیا کہ اس نے امریکہ سے پوچھے بغیر روس کا دور ہ اور کچھ معاہدے کرنے کی کوشش کیوں کی۔ اس موقع پر محمد اقبال ظفر نے ماضی بعید میں بھٹو مرحوم کی بات کی کہ انہوں نے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے امریکہ کی بات نہیں مانی تھی اور روس سے سٹیل مل سمیت اہم پیشرفت کی تھی اور امریکہ نے ان کی جان لینے تک کی دھمکی دی جس پر بعد میں عمل بھی ہو گیا تو تاریخ گواہ ہے کہ ہم آزاد تو ہوئے لیکن ہمیں بڑی طاقتوں نے صحیح معنوں میں آزاد نہیں رہنے دیا۔
اس موقع پر انیب ظفر نے جو گزشتہ دنوں جرمنی اور اسٹریا میں نوجوانوں کے ایک عالمی اجتماع سے وا پس آئے پاکستان اور دنیا کی دوسری اقوام کی آزادی کے حوالے سے مشاہدات کا تذکرہ اور تقابل کیا۔ سینئر قلم کار اشرف یاد اور نوجوان دانشور منیر انصاری بھی اس بحث کا حصہ بنے۔
ایک موقف یہ تھا کہ پاکستان کی سچی آزادی کے لئے تمام سول قیادت اور عسکری قیادت کو مل بیٹھ کر پاکستان کی آزادی کے لئے عمرانی معاہدے کرنے ہوں گے۔ آئین کی روشنی میں تمام اداروں کی سمت اور دائرہ کار طے کرنا ہوگا اورایک دوسرے کونیچا دکھانے کی بجائے تمام طاقت عوام کی بہتری کے لئے صرف کرنا ہوگی۔ کئی برسوں کی ماضی کی ڈنگ ٹپائو پالیسیوں نے آج ہمیں وہاں لا کھڑا کیا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم مودی ہم پر طنز کے تیر برسا رہا ہے اور دنیا اس کا نوٹس لینے کی بجائے ہنس رہی ہے۔
14 اگست یوم آزادی کے حوالے سے ہمیں نئے عزم نئے جذبے سے ہمکنار کرتا ہے تو 15 اگست اور 17 اگست دو الگ الگ واقعات کے حوالے سے ہمیں اداس کرجاتا ہے 15 اگست کو علم اور ادب کے حوالے سے ایک چراخ بجھاجاوید طفیل نے اچانک رحلت کی۔جاوید طفیل مرحوم کو ادارہ نقوش کی باگ ڈور ایسے حالات میں سنبھالنا پڑی تھی جب نقوش پاکستان یا برصغیر ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر اردو کے ایک باوقار ادبی جریدے کا مقام حاصل کر چکا تھا۔ اتنے بڑے ادبی جریدے کو سنبھال کر آگے بڑھنا آسان کا نہ تھا۔ اس ذاتی بڑے ادارے کے ساتھ پاکستان رائٹرز گلڈ کے انتظامات تھے۔ اس ادارے کے اثاثوں کو بچانا تھا۔ اثاثے جو پاکستان گلڈ کے اراکین کی مشترکہ ملکیت تھے اور جن پر ایک مدت سے مختلف سرکاری اداروں اور افسران کی نظریں تھیں۔
جاوید طفیل مرحوم نے اپنے اشاعتی ادارے اور جریدے نقوش کو بھی اپنے عزیزوں کے تعاون سے سنبھالا اور گلڈ کو بھی بھرپور توجہ کا مرکز بنایا۔۔ جاوید طفیل مرحوم نے علم و ادب کے پیاسوں اور خاص طورپر نوجوان نسل کو نقوش پیٹ فارم پر جمع ہونے والے علمی ادبی اثاثوں سے فیض یاب کرنے کیلئے عملی اور ٹھوس قدم اٹھایا۔ انہوں نے نقوش کے تاریخی خاص نمبروں کے نسخے گورنمنٹ کالج لاہور کی لائبریری کے نقوش کلیکشن کیلئے پیش کئے جانے کے بعد فروری 2007ء میں پانچ ہزار ایسے نادر خطوط ’’نقوش کلیکشن‘‘ میں جمع کروائے جو دنیا بھر سے اور برصغیر کے مختلف حصوں سے اپنے وقت کے نامی گرامی ادیبوں‘ شاعروں اور دانشوروں نے لکھے تھے۔ ’’نقوش کلیکشن‘‘ کو اور زیادہ RICH کرنے کیلئے جاوید طفیل مرحوم کے بعد اب انکی صاحبزادی فرح جاوید نے یہ سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور وقت کیساتھ ساتھ جتنی غیر مطبوعہ نگارشات‘ خطوط دستیاب رہے ہیں‘ وہ گورنمنٹ کالج کی لائبریری کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔
17 اگست کوجنرل ضیا الحق طیارے کے ایک المناک حادثے میں زندگی اور اقتدار دونوں سے محروم ہو گئے۔ وہ اپنے وقت کے مقبول لیڈر بھٹوکے خلاف مارشل لا کے ذریعے اقتدار میں آئے۔ بھٹوکی فیملی یا رشتہ دار تو اب تک اقتدار میں ہیں لیکن ضیا الحق اپنی موت تک ہی مضبوط رہ سکے۔ ان ان کی موت پر ان کے اہل خانہ کے ساتھ سیاسی میدان میں ان کے حامی بھی اداس ہوئے۔ان کی موت میں ایک سبق بھی پوشیدہ تھا کہ اس دنیا میں ہر طاقت عارضی ہے۔ سب کچھ یہیں رہ جاتا ہے اصل اقتدار اللہ کا ہے اور دنیا میں اپنی موت کے بعد بھی وہی زندہ رہتے ہیں جنہوں نے خلق خدا کیلئے کچھ کیا ہو۔صرف اپنے اقتدار اور اپنے مفادات کو نہ دیکھا ہو۔اس وقت جب کہ محرم کا مہینہ چل رہا ہے تو یہ بات اوربھی ریلیونٹ ہے کہ
یزیدیت حکومت چار دن کی
حسینیت ازل تک حکمراں ہے