• news

آٹھویں نگران سیٹ اپ سے توقعات وابستہ!

رانا فرحان اسلم ranafarhan.reporter@gmail.com
 صدرمملکت ڈاکٹرعارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 224 ایک اے کے تحت انوارالحق کاکڑ کی بطور آٹھویں نگران وزیراعظم تعیناتی کی منظوری دے دی ہے۔ آئندہ عام انتخابات کیلئے بننے والے نگران سیٹ اپ سے ملک بھر کے عوام کو جمہوری عمل کی شفافیت اور ان عام انتخابات میں منصفانہ اور آزادانہ کردار کے حوالے سے بجا طور پر امیدیں وابستہ ہیں۔ ملکی تاریخ میں اس سے پہلے کون کون اور کب کب نگران وزیر اعظم رہا، آیئے ایک نظر ڈالتے ہیںملک کے پہلے نگران وزیرِ اعظم کا اعزاز غلام مصطفی جتوئی کو جاتاہے، ان کا دور06 اگست 1990 تا 6 نومبر 1990تک رہا،اِن کی نگرانی میں 1990 میں ملکی تاریخ کے پانچویں عام انتخابات کا انعقاد ہوا تھا اورانتخابات کے نتیجے میں نوازشریف پہلی بار وزیرِاعظم بنے تھے دوسرے نمبر پر بلخ شیر مزاری ملک کے دوسرے نگراں وزیرِاعظم بنے اور ان کا اقتدار صرف 39 دن ہی چل سکا ، اور نہ ہی اِن کی نگرانی میں عام انتخابات کا انعقاد ہوسکا ،کیوں کہ 19اپریل 1993کو صدرغلام اسحق خان نے آٹھویں ترمیم کے ذریعے نواز شریف کی حکومت کو برطرف کردیا اور بلخ شیر مزاری کو نگراں وزیرِ اعظم مقررکردیا۔ مگر سپریم کورٹ نے نوازشریف کی حکومت کو بحال کردیا اور یوں نگراں حکومت کالعدم ہوگئی۔ اس طرح بلخ شیر مزاری محض 39 دِن وزیرِ اعظم رہے تیسرے نمبر پر معین قریشی18جولائی 1993 تا 19 اکتوبر 1993تک نگران وزیر اعظم رہے ،تاہم 1990میں قائم ہونے والی حکومت اپنی مدت پوری نہ کرسکی اور نئے انتخابات کا انعقاد 1993میں ہوا۔ معین قریشی کو ملک سے باہر سے لا کر نگراں وزیرِ اعظم بنایا گیا۔ 1990 انتخابات کے نتیجے میں بے نظیر بھٹو دوسری بار وزیر اعظم بنی تھیںچوتھے نمبر پر معراج خالد 5 نومبر 1996 تا 17 فروری 1997 تک نگران وزیر اعظم رہے۔1993میں بننے والی بے نظیر بھٹو کی حکومت بھی مدت پوری نہ کرسکی اور 1997میں عام انتخابات ہوئے۔ اس بار ملک معراج خالد کو نگراں وزیرِاعظم بنایا گیا۔ معراج خالد ایک شریف اور پڑھے لکھے سیاست دان کی شہرت رکھتے تھے۔ وہ ایک عام آدمی تھے، جو اس منصب تک پہنچے۔انتخابات کے نتیجے میں نواز شریف دوسری بار وزیرِ اعظم بنے،لیکن بھاری مینڈیٹ سے منتخب ہونے والے وزیر اعظم کی حکومت بھی اپنی مدت پوری نہ کرسکی۔ جمہوری  نظام کی عدم موجودگی میں فوجی سربراہ ہی  عام انتخابات کی ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔ ضیاء الحق اور جنرل مشرف کی حکومت میں نگراں سیٹ اپ تشکیل نہ دیا جا سکاتھا۔ جب2002 کے انتخابات کے بعد جنرل پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں اسمبلیوں کی مدت ختم ہوئی تو پانچویں نمبر پر محمد میاں سومرو 16 نومبر 2007 تا 25 مارچ 2008تک نگران وزیر اعظم رہے ،2008 کے انتخابات میں محمد میاں سومرو نگراں وزیرِ اعظم رہے۔ انتخابات کے نتیجے میں یوسف رضا گیلانی وزیرِ اعظم منتخب ہوئے۔ دسمبر 2007 میں بے نظیر بھٹو کی قاتلانہ حملے میں وفات کی وجہ سے انتخابات تاخیر کاشکار ہوئے تھے۔یہ سب سے طویل مدت کے لیے نگراں وزیراعظم رہے، ان کا دور4 ماہ اور8 دن رہاچھٹے نمبر پر میر ہزار خان کھوسو25 مارچ 2013 تا 5 جون 2013تک نگران وزیراعظم رہے،پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت نے اپنی مدت پوری کی اور 2013 میں عام انتخابات ہوئے۔اوربلوچستان سے تعلق رکھنے والے میرہزار خان کھوسو کو نگراں وزیر اعظم بنایا گیا۔ ان انتخابات میں نواز شریف تیسری بار وزیرِ اعظم منتخب ہوئے ساتویں نمبر پرسابق چیف جسٹس ناصر الملک یکم جون 2018 تا 18 اگست 2018تک نگران وزیر اعظم رہے۔2013میں قائم ہونے والی حکومت نے اپنی مدت پوری کی اور2018 میں ملکی تاریخ کے گیارہویں عام انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات کی نگرانی کے لیے سابق چیف جسٹس ناصر الملک کو نگراں وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ جسٹس ناصر الملک کو بطور نگراں وزیرِ اعظم کا فیصلہ قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف نے کیا تھا صدرمملکت عارف علوی نیوزیراعظم شہبازشریف کی ایڈوائس پرانوارالحق کاکڑ کو ملک کا آٹھواں نگران وزیراعظم مقررکیا ہے پاکستان کے کم عمر ترین نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑکا تعلق بلوچستان کے کاکڑ قبیلے سے ہے۔انوارالحق بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پیدا ہوئے،ان کے والد احتشام الحق کاکڑنے اپنی کیریئرکا آغازبطور تحصیلدار شروع کیا تھا جس کے بعد وہ مختلف سرکاری عہدوں پر فائزرہے۔انوارالحق کاکڑ کے دادا قیام پاکستان سے قبل ریاست قلات میں خان آف قلات کے معالج کے طورپرفرائض سرانجام دیتے رہاانوارالحق کاکڑ نے ابتدائی تعلیم کوئٹہ سے حاصل کی جبکہ انٹرمیڈیٹ کیڈٹ کالج کوہاٹ سے کی ، اور گریجوایشن اورپوسٹ گریجوایشن یونیورسٹی آف بلوچستان سے کی،وہ قانون کی تعلیم حاصل کرنے لندن گئے تھے لیکن سیاست میں دلچسپی کے باعث وہ واپس پاکستان آکر عملی سیاست میں حصہ لیاانہوں نے سیاست کا آغاز مسلم لیگ سے کیا۔ سنہ 1999 میں نواز لیگ کی حکومت کے خاتمے کے بعد انھوں نے ق لیگ میں شمولیت اختیار کی اور انھوں نے ق لیگ کی ٹکٹ پر 2002 میں کوئٹہ سے قومی اسمبلی کی نشست سے انتخاب لڑا لیکن انھیں کامیابی نہیں ملی۔ جب 2013 کے عام انتخابات میں بلوچستان میں نواز لیگ اور قوم پرست جماعتوں کی مخلوط حکومت قائم ہوئی تو انوار کاکڑ سابق وزیراعلی سردارثنا اللہ زہری کی حکومت میں حکومت بلوچستان کے ترجمان رہے انوارالحق کاکڑمارچ 2018 میں آزاد حییثیت سے سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے تھے، ان کی 6 سالہ مدت مارچ 2024 میں ختم ہونا تھی مگر انہوں ے قبل از وقت یہ نشست چھوڑ دی۔ انہوں نے سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے سمندر پار پاکستانیزاورہیومن ریسوس ڈیولپمنٹ کے چیئرمین کے طور پر کام کیا، اس کے علاوہ وہ سینیٹ کی بزنس ایڈوائزری کمیٹی، فنانس اینڈ ریونیو، خارجہ امور اور سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے رکن بھی رہے۔

ای پیپر-دی نیشن