میاں افتخار الدین اور متروکہ جائیداد
سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان اور طرح کی بات کرتے ہیں۔ آپ ان کی رائے سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن ان کا علمی مقام مرتبہ متقاضی ہے کہ ان کی رائے پر غور ضرور کیا جائے ۔ وہ بنگلہ دیش کی پاکستان سے علیحدگی کے قائل نہیں۔ وہ اصرار کرتے ہیں کہ مشرقی پاکستان ہی اصلی پاکستان تھا۔ پھر مشرقی پاکستان کی پاکستان سے علیحدگی چہ معنی دارد۔ وہ پوچھتے ہیں کہ قیامِ پاکستان سے پہلے پنجاب، سندھ، بلوچستان میں مسلم لیگی حکومت تھی ہی کہاں ؟ ان کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا سمیت چاروں صوبوں میں سرداروں ، خوانین اور جاگیرداروں کی حکومت تھی ۔ پھر ڈھاکہ شہر ہی مسلم لیگ کی جنم بھومی تھی ۔ افضال بیلہ نے لکھا ہے، ’میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر بہت رویا تھا۔آدھی صدی سوگ مناتا رہا۔ مگر اب سوچتا ہوں کہ بنگالی بھائی ہمارے وڈیروں ، سیاستدانوں ، جاگیرداروں اور اسٹیبلشمنٹ سے آزاد ہو کر اچھے ہی رہے‘ ۔
بنگال میں جاگیرداری نہیں تھی ۔ ان کا رہن سہن سادہ تھا۔ متحدہ پاکستان کے آخری دنوں میں مولوی فرید احمد جو ایک وقت میں ڈھاکہ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر بھی رہے ، لاہور ایئر پورٹ پر دھوتی بنیان میں اترے ۔ ڈھاکہ سے آئے ہوئے اس مہمان سے ان کے لباس بارے پوچھا گیا تو کہنے لگے، ’ہمارے ہاں دھوتی اور آدھے بازوئوں والی بنیان مکمل لباس سمجھی جاتی ہے‘۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد مشرقی پاکستان مسلم لیگ نے جاگیرداری کے خلاف قرارداد منظور کرلی تھی ۔ ہمارے جاگیردار ان کے ساتھ رہنا اپنے مزاج کے موافق نہیں پا رہے تھے ۔ انھوں نے ذہنی طور پراسی دن سے علیحدگی کا فیصلہ کرلیا تھا۔ پھر بنگالی قیادت بھی ان کے ساتھ چلنے سے انکاری ہو گئی ۔ متحدہ پاکستان کے حامی بے چارے دب کر رہ گئے ۔
بنگال کے سیاستدان عالم فاضل تھے، دبنگ ، جرأت مند تھے ۔ ہماری سیاست شروع سے ہی جاگیرداری کے نرغے میں رہی ۔ ایک جاگیردار اول و آخر جاگیردار ہوتا ہے ۔ اس کی سیاسی جدو جہد سمیت ساری تگ و دو صرف جاگیروں کی حفاظت میں گزر جاتی ہے ۔ مغلیہ دور میں جاگیریں وراثتی نہیں تھیں۔ ایک جاگیردار کے مرنے کے بعد جاگیر دوبارہ دربار کو منتقل ہو جاتی تھی ۔ مغلوں کے زوال کے بعد اپنے اقتدار کو استحکام بخشنے کے لیے ہندوستان نے اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے اور مقامی وفاداروں کا ایک ٹولا پیدا کرنے کے لیے انگریزوں نے یہاں زرعی اراضی میں نجی ملکیت کو رواج دے کر زمین کے وسیع رقبوں کو اپنے وفاداروں میں تقسیم کیا۔ اس طرح نوابوں ، راجواڑوں اور جاگیرداروں کا ایک طبقہ پیدا ہو گیا جو انگریز راج کے لیے سب سے زیادہ مفید اور مددگار ثابت ہوا۔ انگریزوں کا عہد مجموعی طور پر جاگیرداروں ، راجوں ، مہاراجوں اور نوابوں کا ہی عہد تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد ہماری سیاست میں یہی جاگیرداری اثررسوخ کارفرما رہا۔
میاں افتخار الدین کاتعلق باغبانپورہ کے امیر کبیر گھرانے سے تھا۔ ان کے والد پنجاب کے بہت بڑے جاگیردار تھے ۔ ان کی وسیع و عریض اراضی لاہور کے نواح میں پھیلی ہوئی تھی ۔ میاں افتخار الدین نے ابتدائی تعلیم ایچی سن کالج سے حاصل کی ۔ پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے اوکسفرڈ چلے گئے ۔ برطانیہ میں قیام کے دوران میاں صاحب کو برطانوی جمہوریت کے براہ راست مشاہدے کا موقع ملا۔ وہاں کے ترقی پسند، روشن خیال عناصر سے ربط ضبط ، اوکسفرڈ کی علمی فضا اور مختلف ملکوں سے آئے ہوئے طلبہ کی صحبت نے ان کے فکر نظر اور سوچ بچار پر بہت اثر ڈالا۔انھیں اپنے دیس کے مجبور عوام کی غربت اور تذلیل کا شدید احساس ہونے لگا۔ اس احساس نے صورتحال بدلنے کی خواہش اور عمل کے جذبہ کو بیدار کر دیا۔پھر وہ اپنے دیس کی قومی زندگی کو سرسبز و شاداب دیکھنے کی تمنا میں سرگرم عمل رہے ۔ ایک رئیس گھرانے کے ناز و نعم میں پلے سپوت نے عیش و عشرت سے کنارہ کش ہو کر قومی آزادی اور معاشی انقلاب کے لیے سیاست کی پرخار راہوں کا انتخاب کر لیا۔
انھوں نے ہندوستان پہنچ کر اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کانگریس سے کیا۔ 1937ء کے صوبائی انتخاب میں کامیابی حاصل کی ۔ انھیں پنجاب اسمبلی کانگریس کا سیکرٹری بنا دیا گیا۔باغبانپورہ لاہور میں ان کی محل نما حویلی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن گئی ۔ وہ 1938ء میں کانگریس کے اندر بننے والی سوشلسٹ پارٹی کے بانیوں میں سے تھے ۔ پھر میاں صاحب حضرت قائد اعظمؒ کی دعوت پر مسلم لیگ میں چلے آئے ۔ انھیں پنجاب مسلم لیگ کا صدر بنا دیا گیا۔ وہ پہلی آئین ساز اسمبلی کے بھی رکن رہے ۔ انھیں 18ستمبر 1947ء کو حضرت قائد اعظمؒ نے پنجاب میں وزیر بحالیات اور مہاجرین مقرر کر دیا۔ وہ شہری اور زرعی زمین سمیت تمام متروکہ جائیداد سرکاری تحویل میں رکھنے کے حامی تھے ۔ ان کا استدلال تھا کہ ان جائیدادوں کے ذریعے معاشی اور سماجی انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے ۔ ان کی یہ تجویز اقتدار میں براجمان جاگیردار حلقوں کو پسند نہ آئی۔ جو ان متروکہ جائیدادوں کو خود ہڑپ کرنا چاہتے تھے یا اپنے چہیتوں میں بانٹنا چاہتے تھے۔ یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے انھوں نے محض 44دنوں بعد یعنی 2نومبر1947ء کو وزارت سے استعفیٰ دے دیا۔