بلوچستان کے مسائل، نئے وزیر اعظم کا امتحان
بلوچستان میں ایک بار پھر جس طرح دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک دشمن عناصر اس صوبے کی تعمیر و ترقی سے خوش نہیں۔ اس وقت صوبے میں ہمارے فوجی جوان اپنی جان کی قربانیاں دے کر دہشت گردوں کی تخریبی کارروائیوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہیں۔
سی پیک سے اس سے منسلک ہر منصوبے کو دہشت گرد گروپوں نے خاص طور پر نشانے پر لیا ہوا ہے۔ گزشتہ روز گوادر میں جس طرح چینی انجینئر پر حملہ ہوا وہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس منصوبے کے دشمن کیا چاہتے ہیں۔ اوپر سے حکومت نے عجلت میں جس طرح لاہور میں گودار چائنہ یونیورسٹی کے قیام کی منظوری دی ہے۔ اس سے بھی صوبے میں قوم پرست جماعتوں اور عوام میں ایک نئی اختلافی بحث چھڑ گئی ہے۔ ایسے کام کرتے ہوئے حکومت کو احتیاط کی ضرورت ہے۔ اب بھی بہتر یہی ہے کہ یہ یونیورسٹی گوادر میں قائم کی جائے جہاں چاروں صوبوں بشمول آزاد کشمیر و گلگت بلتستان کے طلبہ کے لیے خصوصی سیٹیں رکھی جائیں جس طرح پنجاب یونیورسٹی میں سینکڑوں بلوچ پشتون ، گلگت و بلتستان کے طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ ان کی سیٹیں مختص ہیں۔ اس طرح قومی یکجہتی کو بھی فروغ ملے گا۔
گزشتہ روز ملک کے نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔ ان کا تعلق بھی بلوچستان سے ہے۔ وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بالغ نظر سیاستدان بھی ہیں۔ اگر وہ اپنے عبوری دور حکومت میں اپنے صوبے کے مسائل کے حل کیلئے کوئی لائحہ عمل تیار کرتے ہیں اس پر عمل درآمد کراتے ہیں تو یہ ان کی سب سے بڑی کامیابی ہو گی۔ اگرچہ ان کا پہلا اور بنیادی کام ملک میں عام الیکشن کی تیاری اور اس کا انعقاد ہے۔ مگر اس کے ساتھ ان کا صوبہ بھی خصوصی توجہ کا متقاضی ہے جو بیک وقت دہشت گردی۔ سیاسی انارکی، لسانی و علاقائی عصبیت کا شکار ہے۔ روزگار اور تعلیم ہی نہیں صحت و آمدورفت کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے اس پر بھی توجہ دینا ا ن کا حق ہے۔
بلوچستان کی سیاست میں پشتون اور بلوچ فیکٹر کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ یہ دونوں وہاں کی طاقتور حریف بھی متصور ہوتے ہیں۔ مگر خدا کا شکر ہے کہ سیاسی اور نظریاتی اختلاف کے باوجود یہ مل جل کر رہتے ہیں۔ جغرافیائی طور پر بھی صوبہ بلوچ اور پٹھان آبادی کی وجہ سے دو حصوں میں بٹا نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں پنجابی بھی آباد ہیں اور ہزارہ برادری بھی موثر قوت رکھتی ہے۔
اس لیے بھی یہاں کے مسائل متنوع ہیں۔ یہاں ہر قیمت پر طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لیے گورنر ہمیشہ پٹھان اور وزیر اعلیٰ بلوچ مقرر ہوتا ہے۔
اب یہ معاملات نئے وزیر اعظم کی صلاحیتوں کا امتحان بھی ہیں۔ وہ ہم سے زیادہ اپنے صوبے کے بارے میں جانتے ہیں (گرچہ راقم الحروف کا تعلق بھی کوئٹہ سے ہے) مگر عملی طور پر سیاسی میدان میں انوار الحق کاکڑ صاحب عرصہ دراز سے موجود ہیں اور سیاسی معاملات کو ز یادہ بہتر طریقے سے جانتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ کہنے میں عار نہیں کہ انہیں اس وقت بلوچستان کی بلوچ قیادت کو بھی کھلے دل سے گلے لگانا ہو گا۔ خاص طور پر ان کے حوالے سے تحفظات رکھنے والے اہم بلوچ رہنما اختر مینگل سے ملاقات کر کے ان کے مسائل و ناراضگی کے اسباب دور کرنا ہوں گے تاکہ صوبے میں ہم آہنگی کی بہتر مثال سامنے آئے جو بہت ضروری ہے۔ بلوچ رہنما بھی کھلے دل سے ان کی محبت و دوستی کے ہاتھ کو تھامیں گلے شکوے دور کر کے ایک نئے سفر کا آغاز کریں تو صوبے میں کوئی وجہ نہیں کہ بدامنی کا خاتمہ نہ ہو، ترقی کی راہ نہ کھلے۔
صوبہ بلوچستان سی پیک کا اصل مرکز ہے اس کی ترقی پورے ملک اور بلوچستان کے عوام کی زندگی بدل دے گی۔ اب وزیر اعظم کا تعلق بھی بلوچستان سے ہے تو وہ اپنے مختصر وقت میں اگر چاہیں تو خوشحالی اور امن کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ صوبے کے عوام اپنے ہی سیاستدانوں اور حکمرانوں کے ہاتھوں بڑی مصیبتیں جھیل چکے ہیں۔ اب انہیں بھی راحت ملنی چاہیے۔ قدرتی وسائل اور معدنیات سے بھرے اس صوبے میں اب زندگی بدل رہی ہے تو انہیں دور جدید کے دستیاب وسائل سے بہرہ مند کر کے ہم پورے ملک میں ماڈل بنا کر پیش کر سکتے ہیں۔ یہی ہمارے نئے وزیر اعظم کا ا ہم امتحان ہو گا۔ یہ وقت باہمی اختلافات بڑھانے کا نہیں۔ اتحاد و اتفاق کا ہے۔ شاعر نے کیا خوب کہا تھا
یہ وقت بہت نازک ہے ہمارے دشمنوں نے بلوچستان اور وزیرستان کو نشانے پر لے رکھا ہے۔ کہیں مذہب کے نام پر کہیں نام نہاد آزادی کے نام پر نوجوانوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ ملک کے خلاف نعرے لگا کر اپنے غیر ملکی آقائوں کے ایجنڈے پر عمل پیرا یہ زرخرید حالات خراب کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ الیکشن کے پرامن انعقاد کے لیے وزیر اعظم کو اس طرف بھرپور توجہ دینا ہو گی تاکہ قوم ہمیشہ انہیں اچھے لفظوں میں یاد کرے۔
٭…٭…٭