ریاستی ستون آئینی دائرۂ کار میں رہیں
سینیٹ میں اتحاد ی پارلیمانی رہنمائوں نے مشترکہ بیان میں سپریم کورٹ کے ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے پر شدید ردعمل کا اظہار کیاہے۔ سینیٹرز اسحاق ڈار، یوسف رضا گیلانی، اعظم نذیرتارڑ، مولانا غفورحیدری، منظورکاکڑ، طاہربزنجو، شفیق ترین، حاجی ہدایت اللہ اور محمد قاسم نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ رولز کو ایکٹ آف پارلیمنٹ سے مقدم کہنا غیرآئینی اور افسوس ناک ہے۔ عدالت کوپارلیمان کے اختیارات میں مداخلت سے گریز کرنا چاہیے، قانون سازی صرف اور صرف پارلیمان کا اختیار ہے۔ آئین ِ پاکستان میں ریاستی اداروں کے اختیارات اور ذمہ داریاں متعین کی جا چکی ہیں اور ہر ادارے کو آئینی حدود میں رہ کر ہی اپنے اختیارات کو استعمال کرنے کا حق دیا گیا ہے۔ اگر کوئی ادارہ اپنے اختیارات اور ذمہ داریوں سے تجاوز کرتا ہے تو اس سے ادارہ جاتی ٹکرائو پیدا ہوتا ہے جس سے سسٹم کو بھی نقصان پہنچنے کا احتمال رہتا ہے۔ اگر ادارے آئین کی متعینہ حدود و قیود میں رہ کر اپنے اختیارات اور ذمہ داریاں ادا کریں تو کسی قسم کا کوئی تنازعہ ہی پیدا نہ ہو اور نہ ان میں ٹکرائو کی نوبت آئے۔ اس وقت المیہ یہ ہے کہ ریاستی ادارے آپس میں دست و گریباں ہیں جس سے انصاف بھی متاثر ہو رہا ہے اور عوامی مسائل کی طرف بھی یکسو ہو کر توجہ نہیں دی جا رہی۔ ملک میں غیریقینی کی فضا قائم ہے جس سے اندرونی و بیرونی ملک دشمن عناصر فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ملکی سطح کے ہمارے بہت سے مسائل حل کرنے کا واحد نسخہ یہی ہے کہ ریاست کے تینوں ستون اپنی آئینی حدود میں رہ کر ہی اپنی ذمہ داریاں پوری اور اختیارات استعمال کریں اور کسی دوسرے ستون یا ادارے کے اختیارات میں مداخلت سے گریز کریں۔