آنکھوں کا تارا گروپ
بالآخر خوشخبریاں دینے والی حکومت مدّت پوری کر کے رخصت ہوئی۔ یہاں مدّت سے مراد وہ باقی ماندہ دورانیہ ہے جس سے عمران حکومت کو دستبردار ہونا پڑا تھا۔ ہر حکومت اپنی کسی نہ کسی نمایاں خوبی یا نمایاں خرابی کی بنیاد پر یاد رکھی جاتی ہے۔ باقی ماندہ مدّت پوری کرنے والی شہباز حکومت اپنی ان گنت خوشخبریوں کی وجہ سے یاد رکھی جائے گی جن میں سے کوئی بھی ، کبھی پوری نہیں ہوئی اور ہر بار خوشخبری کا الٹ ہی سچ نکلا۔ من جملہ ان گنت خوشخبریوں کے یہ بھی تھا کہ روس سے تیل کی درآمد کے بعد تیل اتنا سستا ہو جائے گا کہ لوگ یقین نہیں کریں گے اور پھر ہوا یہ کہ تیل اتنا مہنگا کر دیا گیا کہ لوگوں کو پٹرول پمپوں پر ادائیگی کے بعد بھی یقین نہیں آ رہا۔
یہ دو جھولیوں والی حکومت تھی۔ طبقہ امرا عرف ایلیٹ عرف اشرافیہ جب حکومت کے پاس آتا تو وہ اپنی لبالب بھری جھولی ان کے سامنے کر دیتی کہ جتنا اٹھا سکتے ہو، لے سکتے ہو لے لو۔ اور جب غریب اور مڈل کلاس طبقے کی باری آتی تھی تو حکومت انہیں دوسری یعنی خالی جھولی اٹھا کر دکھا دیتی کہ میاں یہاں تو بس اللہ کا نام رکھا ہے، تمہیں کیا دے سکتے ہیں، ہاں تمہاری جیب میں کچھ رکھا ہے تو نکالو اور ہمیں دو، ہم تم سے بھی زیادہ مفلس ہیں۔
____
کل ہی ایک مخالف لیڈر کا یہ بیان نظر سے گزرا کہ یہ 14 ماہی حکومت تاریخ کی ناکام ترین حکومت تھی۔
یعنی انہوں نے کہہ دیا کہ ہر شعبے میں ناکام۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ مسلم لیگ ن کا ناقابل تسخیر ووٹ بنک زمین بوس کرنے کی کامیابی اس حکومت نے حاصل کی۔
کامیابی کا سہرا بہت بڑا ہے۔ شہباز شریف آدھے سے زیادہ سہرا خود رکھ لیں تو پوری طرح حق بجانب ہوں گے ، باقی بچ جانے والا اسحاق ڈار کو عنایت کر دیں۔
بہرحال مبصرین یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر نواز شریف وطن واپس آ کر سیاسی یا انتخابی مہم شروع کر دیں تو ووٹ بنک کی زمیں بوس عمارت ، سائنس فکشن ، فلموں کے مناظر کی طرح ، ریورس پلے کے انداز میں پھر سے اٹھ کر کھڑی ہو سکتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسی لئے تو نواز شریف واپس نہیں آ رہے ، وہ سائنس فکشن والا سین نہیں چاہتے۔
____
خواجہ آصف نے کہا ہے کہ جب تک ’’رسک‘‘ یعنی خطرہ صفر کے برابر نہیں آ جاتا، نواز شریف واپس نہیں آئیں گے۔
نواز شریف سے خواجہ آصف کی ہمدردی کی جو شرح ہے، کوئی بھی دوسرا لیگی لیڈر اس کے نزدیک تک نہیں پہنچا لیکن کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ خواجہ صاحب کی اس ہمدردی کی دال میں بہت کچھ کالا ہے۔ دروغ برگردنِ ’’دیگراں‘‘، کہا جاتا ہے کہ خواجہ صاحب مسلم لیگ ن کے اندر اس لابی کے سرخیل ہیں جو کسی بھی قیمت پر نواز شریف کی واپسی نہیں چاہتی۔ اس لابی کی خواہش ہے کہ میاں صاحب لندن میں ہی خوش رہیں۔
دروغ بر گردنِ دیگراں، خواجہ آصف چاہتے ہیں کہ عمران خاں کی ڈولی اٹھ جانے کے بعد جو میدان خالی ہوا ہے، اس میں ان کا مرزا یار اکیلا ہی چوکے چھکے مارے۔ ان کامرزا یار بہت اونچی پرواز رکھتا ہے۔ چند دن قبل مرزا یار نے بیان دیا تھا کہ میں 30 سال سے اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا ہوں۔
یار لوگوں نے آنکھ کا تارا ہونے کی جو وجوہات بیان کی ہیں، اتفاق سے ان کی تعداد بھی 30 یعنی فی سال ایک وجہ۔ اور ان میں سے ایک وجہ بہت دلچسپ ہے۔ نواز شریف لندن سے گرفتاری دینے لاہور آ رہے تھے اور ان کی خواہش تھی کہ ائر پورٹ پر کارکنوں کی ایک بڑی تعداد ان کا استقبال کرے، دوسرے لفظوں میں الوداعی استقبالیہ دے۔
لاہور میں اس روز نواز شریف کے اندازے سے بھی بڑی تعداد اکٹھی ہوئی، مرزا یار نے ان کی خواہش پر جن کی آنکھ کے وہ تارے رہے ہیں، ان کارکنوں کو ایرپورٹ جانے ہی نہیں دیا، راستے میں ایسی گھمائیاں دے ڈالیں کہ کارکن اگلے دن جا کر کہیں یہ سمجھ پائے کہ ان کے ساتھ ہوا کیا ہے۔
____
خواجہ آصف کی یہ خواہش بھی راویان دگر بیاں کرتے ہیں کہ مریم نواز اچھی بچی بنیں، گھر پر رہیں، کشیدہ کاری سیکھیں اور فارغ وقت میں محفل میلاد سیرت کا جلسہ سجایا کریں، سیاست کا میدان حمزہ، سلمان وغیرہ کے لیے خالی کر دیں کیونکہ آج کا نہ سہی، مستقبل کی آنکھوں کا تارا بلکہ تارے وہی ہیں۔
خواجہ صاحب اس گروپ میں اکیلے نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ عرفان صدیقی اور میاں جاوید لطیف اور ایک آدھ دیگر کے سوا، سبھی کے سبھی اسی آنکھوں کا تارا گروپ سے تعلق رکھتے ہیں۔
____
لیکن فرض کیجئے، اگر میاں نواز شریف پاکستان واپسی کا ارادہ کر لیتے ہیں جس کا امکان ہر گئے دن کے ساتھ گیا گزرا ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے تو پھر خواجہ آصف کیا کریں گے؟۔ بھوک ہڑتال؟ یا دھرنا ؟۔ یا پھر وہ آدھی رات کو اٹھ کر جنرل قمر جاوید باجوہ کو فون کریں گے؟
____
آنکھوں کے تارے کو بہرحال ایک بات ذہن میں رکھنی چاہیے۔ یہ کہ فی زمانہ آنکھوں کے تارے کی جگہ ’’آئی لینز‘‘ نے لے لی ہے، جب چاہا بدل لیا، جب چاہا نیا لگوا لیا۔
یہ دور نکاح نامے کا نہیں ہے کہ جیون بھر ساتھ نبھائیں گے ہم دونوں۔ یہ میرج کانٹریکٹ کا دور ہے یعنی دل بھر جانے تک ساتھ نبھائیں گے ہم دونوں۔ ایک آنکھ کا تارہ بلکہ نجم الثاقب دیکھا نہیں کیسے اٹک کے بندی خانے کے اندھیروں میں گم ہو گیا۔
____
یوم آزادی اس بار پہلے سے زیادہ جوش و خروش سے منایا گیا۔ لوگ بھی زیادہ تھے اور پلاسٹک کے بھونپو بھی۔ بازاروں میں ساری رات فضا روشنیوں سے جگمگاتی، نعروں سے گونجتی رہی۔ کہا جاتا ہے کہ ایک وجہ اس اضافی جوش و ولولے اور تعداد کی افزونی کی یہ تھی کہ کسی راندہ درگاہ پٹی پٹائی پارٹی کی یہ اپیل تھی کہ ا س بار قومی پرچم نہ لہرایا جائے بلکہ اس دن کو یوم سوگ کے طور پر منایا جائے۔
چنانچہ ’’رسپانس‘‘ اس صورت میں ملا۔ سنا ہے پٹی پٹائی پارٹی کے لوگ اب گھروں میں بیٹھ کر یوم سوگ منا رہے ہیں ، سوگ اور ’’ڈپریشن‘‘ اتنا زیادہ ہے کہ کوئی اس سوال کا جوا ب بھی نہیں دے رہا کہ میاں تمہارا یہ یوم سوگ کتنے دن جاری رہے گا۔