نگران وزیراعظم کا حلف نگران سیٹ اپ کا آغاز اور آرمی چیف کی مثبت سوچ
بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے سابق سینیٹر انوارالحق کاکڑ نے 14 اگست کی شام ایوان صدر اسلام آباد میں ملک کے آٹھویں نگران وزیراعظم کے طور پر اپنے منصب کا حلف اٹھالیا۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ان سے حلف لیا۔ حلف برداری کی تقریب میں سبکدوش ہونیوالے وزیراعظم میاں شہبازشریف‘ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی‘ سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف‘ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی‘ تینوں مسلح افواج کے سربراہان‘ صوبائی گورنرز‘ وزرائے اعلیٰ‘ سابق وزرائ، سیاسی قائدین‘ پاکستان میں تعینات مختلف ممالک کے سفیروں اور دوسری اہم شخصیات نے شرکت کی۔ حلف برداری کے بعد نگران وزیراعظم پی ایم ہاﺅس پہنچے جہاں انہیں گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ انہیں مسلح فوج کے دستوں نے سلامی دی۔ سبکدوش ہونیوالے وزیراعظم میاں شہبازشریف نے پی ایم ہاﺅس میں نگران وزیراعظم کا استقبال کیا اور افسران و عملے سے انکی تعارفی ملاقات کرائی۔ اس دوران دونوں قائدین کے مابین ون آن ون ملاقات بھی ہوئی۔ انوارالحق کاکڑ نے شہبازشریف کا شکریہ ادا کیا اور شہبازشریف نے ان کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ بعدازاں سابق صوبائی وزیر میر عاصم کرد اور بلوچستان کے وفد نے نگران وزیراعظم سے ملاقات کی۔ وفد میں سینیٹر سرفراز بگتی اور میر خالد لانگو بھی شامل تھے۔ ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد نگران وزیراعظم نے تمام وزارتوں سے اہم امور پر بریفنگ طلب کرلی۔
یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ انوارالحق کاکڑ نے نگران وزیراعظم کے منصب کا حلف اٹھانے سے قبل اپنی پارٹی اور سینیٹ کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا اور چیئرمین سینیٹ کی جانب سے استعفے کی باضابطہ منظوری کے بعد انہوں نے اپنے نئے منصب کا حلف اٹھایا۔ وہ اس امر کا پہلے ہی اظہار کرچکے ہیں کہ انکی ذمہ داری آزادانہ‘ منصفانہ اور غیرجانبدارانہ انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن کی معاونت کرنے کی ہے اور یہ کردار غیرجانبداری کے ساتھ ادا کرنے کیلئے ہی انہوں نے سینیٹ کی رکنیت اور پارٹی چھوڑی ہے۔ انکے اس جذبے کی بنیاد پر توقع کی جا سکتی ہے کہ نگران حکومت اپنی توجہ آئین کے تقاضوں کے مطابق صرف انتخابات کے انعقاد کی ذمہ داریوں پر فوکس کریگی تاکہ کسی کو انتخابی عمل اور انتخابات کی شفافیت پر انگلی اٹھانے کا موقع نہ ملے۔ بے شک آئین کے تقاضے کے تحت آئینی مدت پوری ہونے سے پہلے تحلیل ہونیوالی اسمبلی کے انتخابات 90 دن کے اندر اندر ہونا ہوتے ہیں جس کیلئے نگران حکومت اور متعلقہ ریاستی‘ انتظامی اداروں نے الیکشن کمیشن کو تمام مطلوبہ سہولتیں اور لوازمات فراہم کرنا ہوتے ہیں۔ اسی تناظر میں نگران حکومت کو صرف روزمرہ کے معاملات نمٹانا ہوتے ہیں اور وہ پالیسی معاملات پر کوئی فیصلہ کرنے یا اقدام اٹھانے سے گریز کرتی ہے۔ تاہم جن غیرمعمولی حالات میں عبوری نگران سیٹ اپ تشکیل پایا ہے جسے آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والے نئے عبوری بیل آﺅٹ پیکیج کی مقررہ میعاد کے اندر تکمیل کیلئے آئی ایم ایف کی لاگو کردہ شرائط پر بھی عملدرآمد کرانا ہے اس لئے سبکدوش ہونیوالی حکومت نے قابل ازوقت تحلیل ہونیوالی اسمبلی میں اسکی تحلیل سے پہلے پہلے ایک مسودہ قانون کی ہنگامی بنیادوں پر منظوری حاصل کرلی جس کے تحت نگران وزیراعظم کو حکومت کی مالی پالیسیوں اور معاملات کی مناسبت سے بعض اضافی اختیارات بھی تفویض کر دیئے گئے۔ اس سے بادی النظر میں سیاسی اور قانونی حلقوں کو یہی عندیہ ملا کہ ملک کو درپیش غیرمعمولی حالات 90 دن کے اندر اندر انتخابات کا آئینی تقاضا پورا کرنے کے متقاضی نہیں ہیں۔ اس حوالے سے پنجاب اسمبلی کے 90 دن کے اندر اندر انتخابات کا آئینی تقاضا سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کے اٹل فیصلے کے باوجود پورا نہ ہونے پر سیاسی اور قانونی و آئینی حلقوں کی جانب سے تشویش کا اظہار سامنے آرہا تھا۔ اگر اسی حوالے سے قومی اسمبلی کے 90 دن کے اندر انتخابات پر بھی آئینی تنازعہ کھڑا ہو جاتا تو یقیناً اسکی سسٹم پر ہی زد پڑتی۔
اسی دوران چاروں صوبوں کی نمائندگی والی مشترکہ مفادات کونسل کی جانب سے نئی مردم شماری کی متفقہ منظوری دے دی گئی جس سے ملک کی سیاسی فضا یکسر تبدیل ہو گئی کیونکہ اس سے آئینی طور پر انتخابات کا انعقاد 90 دن سے آگے لے جانے کا جواز نکل آیا۔ اس حوالے سے گزشتہ روز سیکرٹری الیکشن کمیشن نے بھی وضاحت کی ہے کہ نئی مردم شماری کی منظوری نوٹیفائی ہونے کے بعد نئی حلقہ بندیوں کے تحت انتخابات کرانا بھی الیکشن کمیشن کیلئے آئینی تقاضا ہے جبکہ نئی حلقہ بندیوں کیلئے کم از کم چار ماہ درکار ہیں۔ اس طرح اب انتخابات آئندہ سال فروری یا مارچ میں ہی ممکن ہو پائیں گے جس کے باعث نگران حکومت کا دورانیہ ازخود بڑھ جائیگا اور اس کیلئے مجاز فورم سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کی ضرورت بھی نہیں پڑیگی۔
اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ تحلیل ہونیوالی اسمبلی کے پانچ سال کے پورے عرصے کے دوران ملک میں سیاسی خلفشار اور عوام کے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل بڑھتے اور گھمبیر صورت ہی اختیار کرتے رہے ہیں۔ اس اسمبلی کے ماتحت پی ٹی آئی کے اقتدار کے ساڑھے تین سال بھی سیاسی انتشار اور خلفشار میں ہی گزرے جبکہ اسکے بعد آنیوالی اتحادی جماعتوں کی حکومت نے اپنے 14 ماہ کے عرصہ اقتدار میں عوام کیلئے مہنگائی کے سونامی اٹھائے رکھے اور انہیں ایک لمحہ بھی سکون کا نصیب نہیں ہونے دیا جبکہ بڑھتی سیاسی کشیدگی اور اداروں کے باہمی ٹکراﺅ سے پورے سٹم کی بنیادیں ہلتی نظر آتی رہیں۔ اس تناظر میں اب عوام کو یہ اطمینان ضرور حاصل ہوا ہے کہ نگران سیٹ اپ میں سیاست دانوں کا پیدا کردہ انتشار ان کیلئے سوہانِ روح نہیں بنے گا۔ اگر نگران حکومت نے مہنگائی پر قابو پانے کے بھی موثر اقدامات اٹھا لئے تو اسکے عرصہ اقتدار کی طوالت بھی عوام کے دلوں میں کسی قسم کی بے چینی پیدا نہیں کریگی۔ اس تناظر میں جس بندوبست کے ساتھ وفاقی اور صوبوں میں نگران سیٹ اپ تشکیل پایا ہے‘ قوم کو نئے انتخابات کی طرف لے جانے کے ساتھ ساتھ اسے سیاسی انتشار و خلفشار اور روٹی روزگار کے درپیش مسائل سے نجات دلانا بھی اس کا مطمح نظر ہو سکتا ہے۔ ملک میں سیاسی استحکام ہوگا تو یقیناً ہم اقتصادی استحکام سے بھی ہمکنار ہو پائیں گے۔ اس کیلئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر تواتر کے ساتھ قوم کو یقین دلا رہے ہیں کہ ملک اب درست سمت کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ہر معاملہ میں بہتری کے راستے کھل رہے ہیں اور پاکستان کی سلامتی کو بھی کسی قسم کا خطرہ لاحق نہیں۔انہوں نے نگران وزیراعظم کی حلف برداری کی تقریب کے موقع پر بھی میڈیا سے غیررسمی بات چیت کے دوران انہی خیالات کا اظہار و اعادہ کیا جس سے یہ امر تو واضح ہے کہ ماضی میں جن حلقوں کی جانب سے جمہوریت کیلئے خطرات پیدا ہوتے رہے اور ماورائے آئین اقدامات کے ذریعے جمہوری حکومتوں کی بساط الٹائی جاتی رہی وہی مضبوط اور موثر حلقے جمہوری نظام کی پشت پر کھڑے ہو کر اسے استحکام کی جانب گامزن کرنے کی کوششوں میں مگن ہیں۔ اسکے برعکس جمہوریت کی عملداری کی داعی ہماری سیاسی قیادتوں کی جانب سے باہمی محاذآرائی اور دست و گریباں ہونے کے باعث جمہوریت کا مردہ خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ اگر ہماری سیاسی قیادتیں سسٹم کے فروغ و استحکام کیلئے اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہیں کرینگی تو عوام سسٹم اور اپنی اپنی سیاسی قیادتوں کیلئے کب تک رطب اللسان رہ سکتے ہیں۔