عوامی خدمت کا شان دار استعارہ
ہیلپنگ ہینڈ امریکا میں مقیم پاکستانیوں کی ایک عالمی فلاحی تنظیم ہے، جواس وقت پاکستان کے چاروں صوبوں سمیت آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے ایک سو گیارہ اضلاع میں ضرورت مند اور بے سہارا افراد کی خدمت کر رہی ہے۔پاکستان کے ساتھ ساتھ یہ ادارہ دنیا کے پچاس سے زیادہ دیگر ممالک میں بھی ہنگامی امداد اور فلاحی امور سر انجام دے رہاہے۔اس ادارے کا قیام دو ہزار پانچ کے تباہ کن زلزلے کے بعد عمل میں آیا۔ تنظیم کے روحِ رواں اور پاکستان میں اسکے کنٹری ڈائریکٹر محمد سلیم منصوری ہیں۔ ان سے تفصیلی بات کرنے اور ادارے کے بارے میں معلومات لینے کا موقع ملا۔ محمد سلیم منصوری صاحب بتاتے ہیں کہ ہیلپنگ ہینڈ کے تحت اس وقت تیرہ مختلف پروگرامز پر کام ہو رہا ہے۔ جن پروگرامز پر کام ہو رہا ہے، ان میں یتیم بچّوں کی کفالت کا پروگرام، معذور افراد کی جامع بحالی، سیلاب متاثرین کے لیے پینے کے صاف پانی کی فراہمی، سکلز ڈویلپمنٹ اینڈ لائیولی ہڈ، ایمر جنسی ریلیف، تعلیمی معاونت، معذور بچّوں کا علاج،اسکلز ڈویلپمنٹ اورہیلتھ کیئر پروگرامز کے علاوہ بلا سود قرضوں کے پروگرام بھی شامل ہیں۔
گزشتہ برس ہیلپنگ ہینڈ کے تحت ایک سو گیارہ اضلاع میں دو ہزار کے قریب پراجیکٹس مکمل کیے گئے، جن سے سترہ لاکھ افراد مستفید ہوئے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں تقریباً بیالیس لاکھ سے زائد یتیم بچّے موجود ہیں اور تنظیم کا سب سے منفرد پروگرام یتیم بچّوں کی کفالت ہی کا پروگرام ہے، جس کے تحت والدین کے سائے سے محروم بچّوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا جاتا اورانہیں بنیادی ضروریاتِ زندگی فراہم کی جاتی ہیں۔ یتیم بچّوں کی زندگی میں بہتری لانا اور انہیں عام بچّوں کے برابر مواقع فراہم کرنااس پروگرام کا بنیادی مقصد ہے۔ والدین کے سائے سے محرو م بچّوں کی معاونت کا ماڈل پاکستان بھر میں اپنی انفرادیت کے حوالے سے مقبول ہے۔اس ماڈل کی بنیاد بچّوں کی نفسیاتی،جذباتی اور ذہنی نشوونما کے تمام ترپہلووں کو مدّنظر رکھ کر رکھی ہے،جس کے تحت بچّوں کو تعلیم وصحت، خوراک، شخصیت کی تعمیر اور اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کا تصوّر ان کے گھر، ماحول اور خاندا ن میں رہتے ہوئے دیا جا رہا ہے۔ اس پروگرام کے زیرِ انتظام آزاد کشمیر، گلگت بلتستان سمیت پاکستان بھر میں پچاس سے زائد اضلاع کے دس ہزار چار سو بچّوں کی کفالت کی ذمّے داری ہیلپنگ ہینڈ سر انجام دے رہی ہے۔علا وہ ازیں،”آرفن سپورٹ پروگرام“ کے زیرِ انتظام تعلیم کے شعبے میں مالی معاونت بھی فراہم کی جاتی ہے، جس سے وہ نیایونیفارم خرید پاتے ہیں اوربر وقت اسکول فیس ادا کرپاتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول میں معاونت کے لیے ادارے کا ایجوکیشن سپورٹ پروگرام اسکالر شپس فراہم کرتا ہے اور ضرورت مند اورحق دارطلبہ کو میٹرک کے بعد تعلیمی وظائف دئیے جاتے ہیں۔اسی سبب ہر سال کئی طلبہ اعلیٰ تعلیم مکمل کرکے اپنے گھرانوں کا سہارا بن رہے ہیں۔
2005 ءکے تباہ کن زلزلے کے بعد ہیلپنگ ہینڈنے معذور افراد کی بحالی کے کام کا آغاز کیا تھا، جس کے تحت کئی ہسپتالوں کی بنیاد رکھی گئی، جو اب بھی معذور افراد کے علاج معالجے میں مصروف ہیں۔ مانسہرہ، شہید بے نظیر آباد، مظفرآباد، کراچی، بہاولپور،کوئٹہ، دیر اور چکوال میں واقع بحالی کے یہ مراکز دکھی انسانیت کی خدمت میں مسلسل سرگرمِ عمل ہیں۔ اسی پروگرام کے تحت خیبرپختون خواہ کے علاقے،مانسہرہ میں ایک عالمی معیارکا جسمانی بحالی کمپلیکس تعمیر کیا گیا جس میں مریضوں کو انتہائی کم قیمت پر فزیو تھراپی کی سہولت،پیشہ ورانہ علاج مہیّا کرنے کے ساتھ معاون آلات اورمصنوعی اعضاءبھی لگائے جاتے ہیں۔
محمدسلیم منصوری صاحب نے مزید بتایاکہ اسی پروگرام کے تحت”ہیلپنگ ہینڈ انسٹی ٹیوٹ آف ری ہیبلی ٹیشن سائنسز“بھی قائم کیاگیاہے، جس کا مقصد تعلیم یافتہ اور اہل افرادکومعاشرے کا حصّہ بناناہے، یہاں پیرا میڈیکل ڈپلوما کورسز اورڈاکٹر آف فزیکل تھراپی پروگرامز کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے۔یہ سینٹردر اصل ایک کالج ہے،جو پانچ سالہ ڈاکٹر آف فزیکل تھراپی پروگرام اور دو سالہ ڈپلوما کورسز(فزیو تھراپی، ریڈیالوجی، ہیلتھ ٹیکنالوجی، لیب ٹیکنالوجی، ڈینٹل ٹیکنالوجی)کا انعقاد کر رہا ہے، جو صوبائی حکومت اور نیوٹیک سے رجسٹرڈ ہیں۔ یہاں پیدائشی وحادثاتی،ذہنی وجسمانی معذوری میں مبتلا افرادکی سماجی، جسمانی اور پیشہ ورانہ بحالی کیلئے بہت سَستی، لیکن معیاری سہولتیں موجود ہیں۔ نیز، معذور افراد کی تعلیم و تربیت اور غربت کے خاتمے کیلئے منتخب افراد کی مددکرنا بھی اسی پروگرام کا حصّہ ہے۔ 2005ءکے زلزلے کے بعد تین سال تک توزلزلہ متاثرین کی جسمانی بحالی کا کام جاری رہا، سال 2009ء میں ادارے نے علاقے میں طِب کے شعبے سے منسلک ہنر مند افراد کی کمی محسوس کرتے ہوئے پانچ بنیادی شعبہ جات میڈیکل، فزیوتھراپی،ڈینٹل، لیب پیتھالوجی اور ریڈیالوجی ٹیکنالوجیز میں دو سالہ ڈپلوما پروگرام کا آغاز کیا، جس میں میٹرک سائنس میں 50 فی صد سے زائد نمبرز حاصل کرنیوالے طلبہ داخلہ لے سکتے ہیں۔
فزیکل ری ہیبلی ٹیشن کے چار ذیلی شعبہ جات ہیں۔فزیکل تھراپی کے تحت ادویہ کے استعمال کے بغیر فقط ایکسر سائز کی مدد سے فالج، لقوہ، پولیو،گٹھیا، جوڑوں کے درد، عرق النسائ، آپریشن کے بعد پٹّھوں کی اکڑاہٹ اور پٹّھوں کی کم زوری وغیرہ کا علاج کیا جاتا ہے۔ آکوپیشنل تھراپی شعبے کے تحت پیدائشی طور پر یا پیدائش کے پہلے پانچ سالوں میں تشخیص ہونے والی ذہنی و جسمانی بیماریوں، جیسے دماغی کم زوری، گردن کنٹرول نہ ہونا، کھڑے ہونے اور چلنے میں دشواری، پٹّھوں کا کھنچاو، نومولود کے چھوٹے یا بڑے سراور جسم کے کسی حصّے کے کمزور ہو جانے جیسے امراض کا علاج کیا جاتا ہے، تاکہ بچّے اپنی کمزوریوں پر قابو پا کر بغیر کسی سہارے کےروز مرّہ اموربآسانی انجام دے سکیں۔
اس ادارے سے اب تک ہزار وں افراد باہم معذوری مستفید ہو چکے ہیں۔ نیز،آرتھوٹکس کے شعبے کے تحت، کم زور یا ٹیڑھے اعضاءکے شکار افراد کو مصنوعی سہاروں کی مدد سے بغیر کسی سہارے کے چلنے کے قابل بنایا جا تا ہے۔ علا وہ ازیں، ایسے افراد جن کا کوئی عضوپیدائشی طور پر نہ ہو یا کسی حادثے کی صورت میں کٹ گیا ہو،توایسے افراد کو پراس تھیٹکس کے شعبے کے تحت جدید ٹیکنالوجی سے بنائے گئے مصنوعی اعضائ، انگلی کی ایک پور سے لے کر مکمل ٹانگ،بازو تک لگائے جاتے ہیں۔لینگویج پیتھالوجی کاشعبہ بولنے میں دشواری کے شکار افراد کی تھراپی کرتا ہے۔
محمد سلیم منصوری نے ہیلپنگ ہینڈ پاکستان کے دیگر فلاحی منصوبوں کا بھی تفصیلی ذکر کیا۔ ان فلاحی منصوبوں کا ذکر پھر کسی نشست میں کریں گے۔ یقیناً ایسی تنظیمیں بے سہارا افراد اور ضرورت مندوں کے لیے بڑا سہارا ہیں۔ ان کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ نہ صرف اس طرح کے نیک نامی والے ادورں کے ساتھ مل کر کام کرے بلکہ ان کی حوصلہ افرائی بھی کرے۔ سلیم منصوری خدمت خلق کا بڑا نام ہے۔ ایسے افراد لاکھوں دعاوں کا حصہ ہوتے ہیں۔ انہیں کسی ایوارڈ یا انعام کی ضرورت نہیں ہوتی۔ حکومت ہر سال اداکاروں، صداکاروں اور مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والوں کیلئے مختلف تمغوں کا اعلان کرتی رہتی ہے۔ یقیناً خدمت سے وابستہ محمد سلیم منصوری اور دیگر افراد کو بھی اعلی ریاستی ایوارڈ سے نوازنے کی ضرورت ہے۔ یہ نہ صرف خدمت خلق سے منسلک افراد کی حوصلہ افرائی ہے بلکہ والدین کے سائے سے محروم بچوں کی تعلیم و تربیت کرنیوالوں اور دکھی انسانیت کے لیے زندگیاں وقف کرنے والوں کیلئے بھی اعزاز کی بات ہو گی۔ یہ ادارے ہمارے معاشرے کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں کہ اگر ایسی فلاحی و رفاہی تنظیمیں اور دردِ دل رکھنے والے مخیّر افراد نہ ہو تو اَن گنت افراد کا کوئی پرسان حال نہ ہو اور لاتعداد محنتی، باصلاحیت طلبہ کے خواب ادھورے رہ جائیں۔