خوشی اور احتساب کا دن
14 اگست 1947 کو پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک آزاد ملک کے طور پر نمودار ہوا- قائد اعظم کی قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ کی طویل جدوجہد اور قربانیاں رنگ لائیں اور برصغیر ہندوستان کے مسلمانوں کو آزادی حاصل ہوگئی- وہ ہندوو¿ں کے جبر و استبداد سے باہر نکل آئے- آزادی کے بعد مسلمانوں ہندوو¿ں اور سکھوں کی ہجرت کے دوران فسادات پھوٹ پڑے جن میں لاکھوں مسلمان ہندو اور سکھ شہید اور جان بحق ہو گئے اور پاکستان کی آزادی لہو لہان ہو گئی- ان سوگوار یادوں کے باوجود 14 اگست پاکستان کے عوام کے لیے دلی مسرت کا دن ہے- پاکستان کے عوام سوہنی دھرتی سے ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں اس لیے وہ مشکلات اور مصائب کے باوجود ہر یوم آزادی پر اپنے اپنے انداز میں آزادی کا جشن مناتے ہیں-پاکستان کو آزاد ہوئے 76 سال ہوگئے ہیں- ان 76 سالوں کے دوران کئی نشیب و فراز اور مقامات آہ و فغاں آئے مگر اللہ کے فضل، عوام کے آہنی عزم اور پاک فوج کے مضبوط دفاع کی بناءپر پاکستان آج بھی آزاد ہے- ہم پاکستانی عوام جب مقبوضہ کشمیر میں اور ہندوستان کے مختلف علاقوں میں اپنے مسلمان بھائیوں کی حالت زار دیکھتے ہیں تو اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتے ہیں کہ ہم آزاد ہیں - 1947 میں پاکستان ہر حوالے سے ایک کمزور اور پسماندہ ملک تھا جس کی سلامتی کو شدید خطرات لاحق تھے- بھارتی لیڈروں کو پورا یقین تھا کہ پاکستان زیادہ عرصہ اپنی آزادی برقرار نہیں رکھ سکے گا اور بھارت کے ساتھ الحاق پر مجبور ہو جائیگا- ان مشکل حالات میں قائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت نے دشمن کے عزائم کو خاک میں ملا دیا -گزشتہ 76 سالوں کے دوران پاکستان نے مختلف شعبوں میں قابل ذکر ترقی کی ہے- اگر چین سنگاپور اور ملائیشیا کی طرح پاکستان کو بھی نیک نیت اہل اور محب وطن لیڈر میسر آتے تو پاکستان بھی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہو سکتا تھا - یوم آزادی کے موقع پر خوشی منانے کے ساتھ پاکستان کے عوام کو احتساب بھی کرنا چاہیے 76 سالوں کی تاریخ کے آئینے میں سنجیدہ جائزہ لینا چاہیے کہ ہم دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے پیچھے کیوں رہ گئے جبکہ پاکستان کے پاس ترقی کرنے کے وسائل موجود تھے- بد قسمتی سے آج پاکستان مقروض اور غریب ملک ہے- کروڑوں شہری بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں- 3 کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں- صنعت اور زراعت میں ہمارا شمار پسماندہ ملکوں میں ہوتا ہے- ہمارا عدالتی نظام کمزور ناقص اور فرسودہ ہے- شرمناک حد تک کرپشن کی وجہ سے ہم کشکول لیکر دنیا کے مختلف ملکوں سے بھیک مانگنے پر مجبور ہیں- ہم اجتماعی طور پر ناکام ہوئے ہیں- بے لاگ احتساب اور غیر جانبدار تجزیے کے بعد ہی ہم ان اسباب کو تلاش کر سکتے ہیں جنہوں نے ہمیں ناکام کیا-
پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کے زیر اہتمام یوم آزادی کے حوالے سے ایک پروقار تقریب کا انعقاد ہوا جس میں "یوم آزادی اور قومی ترقی میں ہائر ایجوکیشن کے کردار" پر اظہار خیال کیا گیا- اس تقریب کی صدارت پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر شاہد منیر نے کی- انہوں نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ پاکستان نے درخت کے کانٹے سے ایٹمی صلاحیت تک کا سفر بڑی کامیابی کے ساتھ مکمل کیا ہے- انہوں نے کہا ترقی و کامیابی کا راز بہترین اور معیاری تعلیم میں ہے- آج نالج کا دور ہے لہزا پاکستان سائنس اور ٹیکنالوجی پر زور دے کر ہی حقیقی ترقی کر سکتا ہے- قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ تعلیم تجارت اور دفاعی صلاحیت ہی وہ تین بنیادی ستون ہیں جو قومی ترقی کو یقینی بنا سکتے ہیں- انہوں نے کہا قومی ترقی مثالی یونیورسٹیوں کے بغیر ممکن نہیں ہے-حکومت کو ریسرچ میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے اور ہیومن ریسورس پر خصوصی توجہ دینی چاہیے تاکہ ہماری گروتھ میں اضافہ ہو سکے-حکومت کو تعلیم کا بجٹ 4 فیصد کرنا چاہیے اور ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنا چاہیے -پاکستان کے نوجوان قائد اعظم کی تعلیمات اور آزادی کی روح کے مطابق پاکستان کی تشکیل نو کی جدوجہد کا آغاز کریں -نوجوان آگے بڑھنے کے لیے سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روشنی حاصل کریں- خاتم النبیین یونیورسٹی کے وائس چانسلر رائے منظور ناصر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ طلبہ کو صرف ڈگری نہیں مہارت بھی حاصل کرنی چاہیے -تعلیم ہی قوموں کی ترقی و زوال کا جواز بنتی ہے-نوجوانوں کو اپنی اخلاقی اقدار سے وابستہ ہونا ہوگا-سابق وائس چانسلر گورنمنٹ کالج یونیورسٹی حسن میر شاہ اور پی ایچ ای سی کے ڈائریکٹر کوارڈینیشن ڈاکٹر رانا تنویر قاسم نے بھی اظہار خیال کیا-راقم نے اس تقریب میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ قائد اعظم نے 11 اگست 1947 کو دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی قوم کو روڈ میپ دیا جس کو آئین میں دیباچے کے طور پر شامل کیا جانا چاہیے تھا مگر افسوس ہم نے ان کے اس پالیسی خطاب کو متنازعہ بنا دیا- قائد اعظم نے اپنے تاریخی خطاب میں فرمایا کہ امن وامان کا قیام اور عوام کی جان و مال کا تحفظ ریاست کی بنیادی ذمےداری ہے- کرپشن، رشوت ستانی، بدعنوانی، ذخیرہ اندوزی، اقربا پروری زہر اور لعنت ہیں- ان سماجی برائیوں کو عبرتناک سزائیں دے کر ہی ختم کیا جا سکتا ہے-قائد اعظم نے فرمایا ہمیں عدل و انصاف اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا پڑیگا- پاکستان میں رہنے والے تمام غیر مسلم شہریوں کو مساوی حقوق دینے پڑیں گے- مذہب کو ریاست اور سیاست سے الگ رکھنا ہوگا- افسوس ہم نے قائد اعظم کے فرمودات کو یکسر نظر انداز کیا اور آج مختلف شعبوں میں زوال کا شکار ہیں - قائد اعظم نے 23 مارچ 1940 کے تاریخی خطاب میں فرمایا کہ ہم اس لیے پاکستان حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ ہمارے لوگ روحانی سماجی سیاسی معاشی تعلیمی طور پر مکمل ترقی کر سکیں- راقم نے کہا کہ پاکستان اس لیے ترقی کی دوڑ میں پیچھے ہے کیونکہ ہم گزشتہ 76 سالوں سے انگریزوں کا غلامانہ نظام چلا رہے ہیں- ہمیں قائد اعظم اور علامہ اقبال کے تصور کے مطابق اپنے سیاسی معاشی عدالتی اور انتظامی نظام کی تشکیل نو کرنا ہو گی- پاکستان کی یونیورسٹیوں کو ڈسپلن اور کردار سازی پر توجہ دینا ہوگی اور سیاست دانوں کی تربیت کے لیے پولٹیکل ڈیپارٹمنٹ تشکیل دینے ہوں گے- پاکستان کے موجودہ غیر یقینی حالات کا تقاضا ہے کہ ہم اپنا احتساب کریں اور اپنی تاریخ سے سبق سیکھ کر اپنی اصلاح کر لیں -
خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہءزوال نہ ہو
٭....٭....٭