انوار الحق کاکڑ بلوچستان کے مسائل سے آگاہ‘ حل کی کوشش بھی کریں گے
لاہور (تجزیہ فیصل ادریس بٹ) کوئٹہ کے نواحی علاقے قلعہ سیف اللہ سے تعلق رکھنے والے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا تعلق پٹھان قبیلے سے ہے۔ قلعہ سیف اللہ کا علاقہ مولانا فضل الرحمن اور پختون خواہ میپ، خان، اچکزئی اور جے یو آئی شیرانی گروپ کے حامیوں کا علاقہ تصور ہوتا ہے۔ یہاں اکثریت جے یو آئی فضل الرحمن گروپ کی ہے۔ بی این پی کے سردار اختر مینگل نے بھی انوارالحق کاکڑ کے نگران وزیراعظم بننے کے خلاف بھی دبے لفظوں میں اپنے سیاسی مشکلات میں اضافے کی بات کی ہے۔ یہ شکوہ انہوں نے براہ راست اپنے اتحادی جماعت کے سربراہ نواز شریف سے کرتے ہوئے انہیں ماضی کے بعض تلخ تجربات بھی یاد دلائے ہیں۔ نگران وزیراعظم اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ وہ برطانیہ میں بھی زیر تعلیم رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز مسلم لیگ (نون) سے کیا تھا مگر الیکشن میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اس کے بعد وہ ق لیگ کے جام کمال کے سیاسی رفیق بنے اور حکومت بلوچستان کے ترجمان بھی رہے۔ آج کل وہ سینیٹر تھے۔ ان کی بیورو کریسی اور انتظامی معاملات پرگہری نگاہ بھی ہے۔ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ان کے اپنے صوبے کے لوگوں کو ان سے کیا کیا توقعات ہیں جن پر انہیں پورا اترنا پڑے گا۔ وزیراعظم بننے کے بعد انہوں نے بلوچستان میں تباہ حال سڑکوں کے نظام کو بہتر بنانے کا جو فوری اعلان کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے صوبے کے عوام کو درپیش مسائل سے آگاہ ہیں اور ان کے حل کے لئے کوشش بھی کریں گے۔ ملکی سطح پر انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہوں سے خیر سگالی ملاقاتیں شروع کی ہیں۔ انہوں نے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کرکے یہ تاثر دیا ہے کہ وہ بلوچستان میں بھی سیاسی ہم آہنگی چاہتے ہیں۔ جے یو آئی ایسی جماعت ہے جسے پٹھان اور بلوچ علاقوں میں مذہبی بنیاد پر سیاسی حمایت بھی حاصل ہے، اس کے ایم این ایز اور ایم پی ایز میں پشتون اور بلوچ دونوں اقوام کے لوگ شامل ہیں۔ اب اسی طرح اگر وہ بلوچ بڑی بڑی سیاسی جماعتوں اور قوم پرست رہنماؤں کو بھی اپنی حمایت کا یقین دلاتے ہیں، ان کو ساتھ ملاکر چلتے ہیں تو نہ صرف وفاقی سطح پر بلکہ بلوچستان میں بھی وہ سیاسی حالات پرامن کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جس سے صوبے پر اچھا اثر ہوگا۔