سیاسی حلقوں میں چہ میگوئیاں ہونا شروع ہو گئیں
ندیم بسرا
ملک کے آٹھویں نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑاپنی پوری توانائی کے ساتھ میدان میں اتر چکے ہیں۔ان کا انتخاب قائد ایوان شہباز شریف اور قائد حزب اختلاف راجہ ریاض نے کیا جس کے بعد میڈیا میںنگران وزیراعظم کے نام کی لابنگ کرنے والی کرنے والی شخصیات اب معمول کے کام میں مصروف ہوگئی ہیں۔انوارالحق کاکڑکا نام فی الحال تمام سٹیک ہولڈرز کوقبول ہے مگر اس کو برقرار رکھنے کے لئے نگران وزیراعظم کے لئے کئی سخت اور کٹھن چیلنجز ہیں جس کو عبور کرکے ہی وہ ان لوگوں کی توقعات پر پوار اتر سکتے ہیں جنہوں نے یہ منصب ان کے حوالے کیا ہے۔ملک میں بروقت اور صاف ، شفاف انتخابات کروانا ان کی اولین ذمہ داری ہوگی جس میں تمام سیاسی جماعتوں کا متفق ہونا ضروری ہوگا۔الیکشن نئی حلقہ بندیوں کے مطابق کس طرح ہونگے ؟ یا پرانی حلقہ بندیوں کے مطابق انتخابات ہونگے۔ملک میں غیر یقینی صورت حال کا خاتمہ کرناتاکہ معاشرے میں برداشت کا جذبہ پیدا کیا جاسکے۔ اگرسیاسی جماعتوں کے درمیان کوئی مصالحت کا کردار انہوں نے ادا کرنا ہے تو وہ کیسے کرنا ہوگا ؟ اس کے ساتھ ہوشربا مہنگائی کو کنٹرول کرنا جس نے عوام کا جینا دوبھر کررکھا ہے تاکہ عوام پر کم سے کم بوجھ پڑے ،آئی ایم ایف کے ساتھ ہونیوالے معاہدوں کی مکمل پاسدار ی کرنا بھی ان کی ذمہ داری ہوگی اس کے لئے ان کی منتخب کردہ کابینہ بھی اہم کردار ادا کرے گی ،کابینہ کی غیر جانبداری اور مختصرہونا بڑی اہم ہوگی۔میری نظر میں تو یہ وہ چیلنجز ہیں جو سب کو نظر آرہے ہیں۔ کچھ نظر نہ آنے والے چیلنجز بھی ہیں وہ بڑے مشکل اور حوصلے کے ساتھ کرنے والے ہونگے۔سب سے اہم چیلنج قائد مسلم لیگ ن نواز شریف کی واپسی جس کا اعلان ہوچکا ہے کہ وہ پاکستان واپس آرہے ہیں اس کے لئے راہ ہموار کرنا ،جس میں ان کے خلاف جتنے بھی مقدمات ہیں ان سے کلین چٹ لینا اہم ہوگا اس کے ساتھ ان کے خلاف عدالتوںمیں زیر سماعت کیسز کا دفاع کرنا بھی اہم ہے کیونکہ نوازشریف کی واپسی کے اعلان سے جو امتحان نگران حکومت کا شروع ہوگا اس کا وہ اندازہ نہیں لگاسکتے کیونکہ کئی بڑے سوالات جنم لینا شروع ہو جائیں گے۔نواز شریف کی واپسی اس وقت ہوگی جب ان کے بھائی کی حکومت کو ختم ہوئے دوماہ سے زائدکا عرصہ ہو چکا ہوگا توسب بوجھ نگران حکومت پر آجائے گا۔یہ امتحان خاصا مشکل ہوگا اگر ایسا ہوا تو دباؤ نگران حکومت پر آجائے گا تو بروقت انتخابات کا دباؤ بھی خاصہ زیادہ ہوگا۔انوار الحق کاکڑ جن کے بارے میں فی الحال سب اچھا کی رپورٹ ہے تو دیکھنا ہوگا کہ اس کا تسلسل برقرار رہتا بھی ہے یا نہیں ؟۔ نئی مردم شماری کی منظوری کے حوالے سے مشترکہ مفادات کونسل کا فیصلہ عابد زبیری نے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔ صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عابد زبیری آرٹیکل 184/3 کے تحت آئینی درخواست دائر کر دی۔درخواست میں سپریم کورٹ بار نے استدعا کی ہے کہ نئی مردم شماری سے انتخابات کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔درخواست گزار کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کو فوری طور پر انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا حکم دیا جائے۔درخواست میں وفاق، مشترکہ مفادات کونسل، چاروں صوبوں اور الیکشن کمیشن کو فریق بنایا گیا ہے۔سپریم کورٹ بار کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ 5 اگست کو سی سی آئی کے فیصلے کی روشنی میںجاری نوٹیفکیشن غیرقانونی قرار دیا جائے۔مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں کے پی اور پنجاب کے نگراں وزیرِ اعلیٰ شریک تھے، مشترکہ مفادات کونسل کی تشکیل آئینی نہیں تھی، کونسل نئی مردم شماری سے انتخابات کرانے کے لیے متعلقہ فورم نہیں بنتا تھا۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 224 شق 2 انتخابات 90 دنوں میں کرانے کا پابند کرتا ہے ، عدالت قرار دے کہ الیکشن کمیشن کسی صورت انتخابات 90 دنوں سے آگے نہیں بڑھا سکتا، الیکشن کمیشن کے پاس آئینی اختیار نہیں کہ نئی حلقہ بندیوں کی بنیاد پر انتخابات میں تاخیر کرے، پنجاب اور کے پی کے نگراں وزرائے اعلیٰ 90 دنوں میں الیکشن کروانے میں ناکام رہے، دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد مشترکہ مفادات کونسل کی تشکیل نہیں ہو سکتی۔درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ نگراں حکومتوں کا کام آئین و قانون کے مطابق الیکشن کروانا ہے، نگراں وزرائے اعلیٰ منتخب وزرائے اعلیٰ کی طرح اختیارات استعمال نہیں کر سکتے، نگراں وزرائے اعلیٰ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں شرکت کے اہل ہی نہیں تھے۔جس طرح کے مسائل اور چیلنجز سابق حکومت نے نگران حکومت کے لئے چھوڑے ہیں تو ان مشکلات کو کم کرنے کے لئے نگران حکومت کو کافی سخت محنت کرنا ہوگی اور جہاں تک نگران حکومت کی مدت کا معاملہ ہے تو اس بارے میں کہنا قبل از وقت ہوگا کہ الیکشن اپنے وقت پر ہی ہونگے۔ جس طریقے سے سیاسی حلقوںمیںچہ میگوئیاںہونا شروع ہوگئی ہیں، اس سے تو یہ نگران حکومت کافی مہینوں تک کرسی ء اقتدار پر براجمان رہتی نظر آرہی ہے اگر ایسا ہوا توملک کی تمام سیاسی جماعتیں جمہوریت کی بحالی اور انتخابات کے لئے ایک ٹرک پر کھڑی ہوکرتقرریں کرتی نظر آئیں گی۔