پاکستان کرکٹ کی تاریخی بددیانتی
حافظ محمد عمران
پاکستان کرکٹ بورڈ نے یوم آزادی کے موقع پر ایک ویڈیو جاری کی جس میں ارادتاً 1992ء ورلڈ کپ کے فاتح کپتان عمران خان کو نہیں دکھایا گیا۔ اسے غلطی تو نہیں کہا جا سکتا یہ کام ارادتاً ہوا اور جس نے بھی کیا اُس نے خالصتاً سیاسی سوچ کو سامنے رکھتے ہوئے کھیل کے ماحول کو آلودہ کرنے کی کوشش کی۔ چونکہ بورڈ میں کوئی مستقل نظام نہیں ہے جانے والی حکومت 4 ماہ کے لیے ایک مینجمنٹ کمیٹی قائم کر گئی تھی اور اُس کے سربراہ چوہدری ذکا اشرف ہیں۔ پی سی بی کی مینجمنٹ کمیٹی کے سربراہ کا پاکستان پیپلز پارٹی سے کتنا قریبی اور گہرا تعلق ہے یہ بتانے کی بھی ضرورت نہیں۔ وہ سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انہیں سابق صدر سے قریبی تعلق کی بنیاد پر ہی یہ عہدہ ملا ہے۔ ان حالات میں یہ دلیل پیش کی جا سکتی ہے کہ جس نے بھی یہ ویڈیو بنوائی اور جس نے بھی اس کی منظوری دی اُس کے پیچھے سیاسی سوچ ضرور تھی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے اس عمل سے دُنیا بھر میں کرکٹ دیکھنے ، کھیلنے ، پسند کرنے اور کرکٹ پر لکھنے اور بولنے والوں کو یہ موقع ضرور فراہم کیا کہ وہ اس نامناسب عمل پر اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ یوم آزادی کے موقع پر جہاں دُنیا کو اپنی کامیابیاں فخر کے ساتھ بتائی جاتی ہیں ، پاکستان کرکٹ بورڈ نے تاریخ کو مسخ کرنے ، ملکی کرکٹ کی تاریخ کو سیاسی مخالفت کی بھینٹ چڑھانے اور کھیل کے ماحول کو آلودہ کیا۔ اس بددیانتی پر شور مچا ، کرکٹ بورڈ کو بُرا بھلا کہا گیا ، لوگوں نے آواز اٹھائی اور یوں پاکستان کرکٹ بورڈ کو واپس بنیاد پر جانا پڑا۔ تاریخی بددیانتی پر مبنی ویڈیو ہٹائی گئی اور اُس کی جگہ نئی ویڈیو جاری کی گئی۔
قومی ٹیم کے سابق کپتان اور 1992 کے ورلڈکپ میں پاکستانی ٹیم کا حصہ رہنے والے فاسٹ بولر وسیم اکرم نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’پی سی بی کی جانب سے پاکستان کی کرکٹ کی تاریخ پر مبنی مختصر ویڈیو سے عمران خان کو نکالے جانے پر حیرانی ہوئی۔ سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن عمران خان دنیائے کرکٹ کا ایک عظیم نام ہے جس نے اپنے دور میں پاکستانی ٹیم کو ایک مضبوط یونٹ بنایا اور ہمیں ایک راستہ دکھایا۔‘‘
عالمی میڈیا میں بھی پی سی بی کی اس حرکت پر بہت تنقید ہوئی، پاکستان کے سابق کپتان سلمان بٹ کہتے ہیں کہ آپ کیسے عمران خان کو پاکستان کرکٹ کی تاریخ سے غائب کر سکتے ہیں۔ انہوں نے پاکستان ہی نہیں دُنیائے کرکٹ کی خدمت کی ہے۔ سیاسی اختلافات کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ اُن کی کھیل میں خدمات کو نظرانداز کرتے ہوئے تاریخ بدلنے کی کوشش کریں۔ ہمیں بھی عمران خان سے سیاسی اختلاف ہے اور انہوں نے ملک میں 6 ٹیموں کا جو نظام نافذ کیا تھا شروع دن سے اُس کی مخالفت کی اور آج بھی اُس نظام اور سوچ کے مخالف ہیں لیکن اس کا یہ مطلب تو ہرگز نہیں ہے کہ آپ پاکستان کرکٹ کی تاریخ کے حوالے سے کوئی ویڈیو بنائیں اور اُس میں سے عمران خان کو غائب کر دیں۔ آپ کسی بھی کھلاڑی کے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے۔ جونیئر سلیکشن کمیٹی کے سابق سربراہ ٹیسٹ کرکٹ باسط علی کہتے ہیں کہ ’’یہ کسی احمق کا کام ہے۔ عمران بھائی کا ذکر نہ کریں تو ہماری کرکٹ کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی۔ آپ حنیف محمد، فضل محمود، ظہیر عباس، جاوید میانداد ، یونس خان سمیت ایسے دیگر کھلاڑیوں کو کبھی بھی تاریخ سے باہر نہیں کر سکتے۔‘‘
پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین ذکا اشرف کو یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ اس ویڈیو کے بعد سوشل میڈیا پر لوگوں نے کس انداز میں پی سی بی پر تنقید کی اور انہیں یہ بھی ضرور دیکھنا چاہیے کہ کرکٹ کو سیاست سے دور رکھنے کے فیصلے کریں۔ پاکستان نے ہمیشہ کھیل اور سیاست کو الگ الگ رکھنے کا بیانیہ اپنایا ہے اور رواں برس ہی پاکستان کرکٹ ٹیم نے ورلڈ کپ میں شرکت کے لیے بھارت جانا ہے، بھارت میں کرکٹ کھیلنے کے حوالے سے حکومت نے قومی ٹیم کو وہاں جانے کی اجازت دیتے ہوئے بھی یہی کہا تھا کہ کھیل اور سیاست کو الگ الگ رکھنا چاہیے۔ جب حکومتی سطح پر یہ مؤقف آپ دنیا کے سامنے پیش کریں اور خود اپنے سابق کپتان کو سیاسی بنیادوں پر تاریخ سے نکالنے کی کوشش کریں تو اس دہرے معیار پر سوال ضرور ہونگے۔ آپ اپنے سیاسی رہنمائوں کے لیے ہرممکن کوشش کرتے ہیں کہ انہیں کسی نہ کسی طریقے سے خوش کرنے کی کوشش کریں جو کہ آپ نے اس ویڈیو میں بھی کی۔ کرکٹ بورڈ کو کرکٹ کا دفتر ہی رہنے دیں اسے کسی بھی سیاسی جماعت کا دفتر بنانے سے گریز کریں یہاں لوگوں کی تقرریاں اُن کی صلاحیتوں کی بنیاد پر ہونی چاہئیں۔ اگر سیاست کرنی ہے تو اُس کے لیے سیاست کا میدان سامنے ہے، کھیل کے میدان کو سیاست کا میدان نہ بنائیں، ایک ہی کھیل بچا ہے اُسے سیاست کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔ اس تاریخی بددیانتی کی مکمل اور شفاف تحقیقات کی ضرورت ہے، کون تھا جس نے تاریخ بدلنے کی کوشش کی ، کون تھا جس نے سیاسی آقائوں کو خوش کرنے کی کوشش کی، کون تھا جس کی وجہ سے دُنیا بھر میں پاکستان پر تنقید ہوئی، اُس شخص تک پہنچنا ضروری ہے تاکہ سارا کھیل سمجھ آ سکے۔