80 فیصد لوگ مرض سے لا علم ہوتے ہیں
پروفیسرڈاکٹرنیازاکمل
ہیپاٹائٹس کے بارے میں ڈبلیو ،ایچ ،او کی رائے کے مطابق تیس کروڈ پچاس لاکھ افراد ہیپاٹا ئٹس کا شکار ہیں۔ ہر سال دس لاکھ افراد اس موذی مرض سے ہلاک ہوتے ہیں ہیپاٹائیٹس کی مختلف اقسام ہیں ہیپاٹائٹس بی میں دوکروڑ ساٹھ لاکھ افراد شکار ہیں مریضوں کی اکثریت ایشیاء میں ہے۔جبکہ ایک کروڑ چالیس لاکھ یورپ۔پچاس لاکھ شمالی اور جنوبی امریکہ۔دنیا بھر میں ہر تیس سیکنڈ بعد ایک مریض ہلاک ہوتا ہے پاکستان کی کل آبادی کادس فیصد ہیپاٹائٹس کا شکار ہے دس لاکھ افراد ہیپاٹائٹس سی اور بی کاشکار ہیں ۔ہیپاٹائٹس اے کے پھیلائو کی وجواہات کو گندا پانی قرار دیا گیا بی اور سی کوانتقال خون میں ا ستعمال سرینج انجکشن حجام کے استرے عطائی ڈینٹسٹ اور سرجری میں استعمال ہونے والے نان ڈسپوزایبل آلات اس مرض کے پھیلائو کا باعث بن رہے ہیں بے شمار معا لجین جگر کی لوکیشن اور جگر کے فنکشن سے نا آشنا ہیں مریض کی نبض پکڑکر بتا دیتے ہیں کہ آپ کے جگر اور معدہ میں گرمی ہے مریض ایسے معالجین پر نوٹ نچھاورکرنا شروع کر دیتا ہے اور یہ رائے دیتا ہے کہ آ ج تک کسی ڈاکٹر کو میرے مرض کا صحیح علم نہیں ہوا اس معالج نے میرے مرض کو بھانپ لیا ہے۔ آنکھوں چہرے سے سنیک(تپش)پائوں کے جلنے کی وجوہات ایچ بی لیول کا کم ہونابھی ہوسکتا ہے آنکھوں کی تپش ہاتھ پائوں کا جلنا کوئی بیماری نہیں بلکہ اس بات کا اظہار ہے کہ جسم میں کوئی تبدیلی رونما ہو چکی ہے جس پر توجہ کی ضرور ت ہے۔ ہپاٹائٹس جان لیوا مرض کیساتھ پوشیدہ قاتل بھی ہے 80فیصد لوگوں کو پتا بھی نہیں چلتا کہ وہ ہیپا ٹائٹس کاشکار ہوچکے ہیں ابتدا میں کوئی علامت واضح نہیں ہوتی اتنی دیر میں مرض کافی سرائیت کر چکا ہوتا ہے اس کے پھیلائو میں پڑھے لکھے پیشہ ور طب سے وابستہ افراد کو بری ذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا ۔پارہ شنگرف مختلف کشتہ جات اینٹی بائیوٹیک اور اسٹیرائیڈز کا مسلسل اور بے دریغ استعمال جگر کے امراض کے پھیلائو کا باعث بنتا ہے جگر کا پھیلائو بلاشبہ تکلیف دہ ہے لیکن جگر کا سکڑائو تشویشناک بھی ہے جگر کے کینسر سروسز آف لیور کا باعث ہے مرض کی تشخیص میں لیب کابنیادی کردار ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ڈاکٹر اور لیب کی ملی بھگت سے من پسند رزلٹس کابرآمد ہونا بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ڈاکٹر کی سرپرستی کے بغیر لیب فنکشنل نہیں ہوسکتی ۔غیر مسلم معالجین اور لیبارٹریوں والے لیب رزلٹ پر کمپرومائز نہیں کرتے مافیا تو ہر شعبہ میں ہے مریض بیچارہ تو لاعلم ہوتا ہے دس پندرہ سال ہیپاٹائیٹس کے بارے میں کوئی علامت نشوونما یانمودار نہیں ہوتی لیب رپورٹ میں مرض کے نمودار ہونے کے بعد زیادہ توجہ دی جاتی ہے اس وقت تک جسم میں مرض سرائیت کرچکا ہوتا ہے ۔
جگر کے مرض میں بھوک۔ وزن کا کم ہونا۔جسم۔جوڑوں میں درد ۔ متلی ۔ قے ۔ چہرے کا رنگ تبدیل ہونا ہیپاٹائٹس کی بنیادی علامات ہیں پیلیا۔یرقان کا تو قبل مسیح تذکرہ ملتا ہے لیکن اب ہیپاٹائیٹس کی بے شمار اقسام دریافت ہوچکی ہیں ایسے سائنس دان معالجین جن کی کاوش انتھک محنت اور توجہ سے ہیپاٹائٹس کی اقسام ظہور پذیر ہوئی ہیں ان کی کاوش۔خدمات قابل ستائش اور قابل تقلید ہیں۔
ہمارا المیہ یہی ہے کہ ہم اپنی بات رائے اور سوچ پر ڈٹ جاتے ہیں دوسرے کو اور اس کی رائے کو نیچا دکھانے کیلئے ایڑی چوٹی کازور لگائیں گے یہ گمان ہمارے گمان میں دور تک نہیں گھومتا کہ دوسرے کی رائے بھی صحیح ہوسکتی ہے ۔ ہم امراض کو اپنی سوچ علم اور رائے کے مطابق لا علاج قرار دے دیتے ہیں جبکہ اسلام کا فلسفہ ہماری سوچ اور رائے کے برعکس ہے حدیث مبارک میں بھی ہے اللہ کریم کا فرمان ہے کہ ہم نے ایسی کوئی بیماری نہیں اْتاری جس کی شفاء نہ اْتاری ہو۔
ہماری سوچ میں وسعت ہونی چائیے دوسرے کی بات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا چائیے ہماری ریسرچ ادھوری اور نامکمل ہے ہمیں فوری فتویٰ نہیں جاری کردینا چائیے کہ فلاں مرض لا علاج ہے بلکہ یہ رائے ہونی چاہیے کہ فلاں بیماری کے بارے میں ہماری سوچ رائے،نامکمل ہے اگر کوئی طریقہ علاج کسی مرض کے علا ج کے بارے میں خاموش ہے تو دوسرے طریقہ علاج سے استفادہ کرنا کوئی عار نہیں۔ سوچ اور جذبہ انسانیت کی خدمت ہونا چائیے۔ حکومت کو چائیے کہ تمام منظور شدہ طریقہ علاج پر مشتمل ضلعی سطح پر بورڈ تشکیل دے جو پیچیدہ ا مراض کے علاج کے حوالے سے اپنی خدمات بروئے کار لائے۔ ڈبلیو۔ایچ۔او کے مطابق ہر تیس سیکنڈ بعد وائرل ہیپاٹائٹس کا مریض ہلاک ہوتا ہے پاکستان دنیا بھر میں شوگر کے مرض میں پہلے نمبر پر اور ہیپاٹائٹس کے مرض میں دوسرے نمبر پر ہے آخر کب تک مافیاز کے تسلط میں رہیں گے شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے۔