لاہور ہائی کورٹ بارکے لیے حکومتی فنڈز کی معطلی
فارسی کا شعر ہے:
خشتِ اول چوں نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج
اس وقت پاکستان کی صورتحال ایسی ہی ہے اور تمام محب وطن حلقے اس وقت دکھی ہیں کہ دیوار اب سیدھی کیسے ہو سکتی ہے۔ ہم نے چند دن پہلے 76 واں جشن آزادی منایا ہے ۔ ان 76 برسوں میں ہر سول اور فوجی لیڈر نے قوم کو امید دلانے کی ہی کوشش کی لیکن اللہ جانے خرابی کی پہلی ٹیڑھی اینٹ کس نے کب رکھی تھی کہ دیوار آج بھی ٹیڑھی ہی ہے اور اب تو خدا نخواستہ دیوار کے گرنے کی باتیں ہونے لگی ہیں۔ ایوب کھوڑو لیاقت علی خان ٹسل غلام محمد جیسے شخص کو اقتدار ملنامشرقی بازو کی قیادت کے ساتھ بے مہری ایوب خان اور یحی خان سے ضیاء الحق اور پھرمشرف سے باجوہ تک فوجی قیادت کی سول حکمرانوں سے آنکھ مچولی اور سول اور عسکری حکمرانوں میں سے بیشتر کی ہوس اقتدار اور زر کی ایک تلخ کہانی ہے جس سے پاکستان کا بچہ بچہ آگاہ ہو چکا ہے۔پاکستان نصف رہ گیا ہے اوراس آنکھ مچولی کا سلسلہ جاری ہے۔وہی ٹرک ڈرائیوروں جیسی ضد میری مجبوری، لیکن کیا اس طرح ہم اپنی منزل کی طرف رخ موڑ سکتے ہیں۔ ایک عام پاکستانی کا جواب بھی نفی میں ہوگا ۔ تیتر اور بٹیر کی لڑتے لڑتے اب کیا حالت ہو گئی ہے اس کا اندازہ ہمارے قرضوں اور مہنگائی کی صورتحال سے لگایا جا سکتا ہے۔ ایک دوسرے کا دست و بازو بن کر ملکی وقار میں اضافہ اور عوام کے لیے طاقت اور حفاظت کا ذریعہ بننے والے قومی ادارے آپس میں دست وگریباں ہیں ۔ گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ بار روم کے نوٹس بورڈ پر آویزاں بار کی کابینہ کے فیصلوں کو دیکھا تو بہت دکھ ہوا کہ نوبت بہ اینجا رسید۔
ایسا پاکستان کی انتہائی باوقار بار ایسوسی ایشنوں کی پوری تاریخ میں شاید کبھی نہیں ہوا ہوگا ۔ پاکستان کی تمام بارز کی طرح لاہور ہائی کورٹ بار بھی انتہائی باوقار اورآزاد پلیٹ فارم ہے اورمیں نے بار ہا مشاہدہ کیا کہ مختلف حکومتوں کے دور میں یہاں تک ضیاء الحق مرحوم کے آمرانہ دور میں بھی ان کے سخت ترین مخالف سیاسی دھڑوںکو بار کے پلیٹ فارم پر بلایا جاتا تھا حزب اقتدار اور حزب اختلاف کو برابر کی اہمیت ملتی تھی ۔ حکومت کے بعض اقدامات پر کڑی تنقید کی جاتی تھی لیکن کبھی بارکی سالانہ گرانٹ بند نہیں ہوئی۔ اب اس نوٹس کو ملاحظہ کیجیے۔ اجلاس کی باقی کارروائی تو انتظامی نوعیت کی ہے جس میں ضابطے کے تحت ایگزیکٹو باڈی کی تشکیل اگلے سال کے بار کے انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی تشکیل جیسے فیصلے شامل ہیں لیکن میٹنگ میں کیے گئے جس فیصلے پر دکھ ہوا وہ یہ ہے کہ مرکزی اور صوبائی حکومت پنجاب کی طرف سے امسال لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کو فنڈ روکنے پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بار کی خود مختاری آزادی اور غیرت پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا ۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ساتھ امتیازی رویہ روا رکھا جس کی وجہ سے ملازمین کو گزشتہ تین ماہ سے تنخواہ ادا نہ کی گئی اور ان کے گھروں کے چولھے بند ہو چکے ہیں ۔ ملازمین کوتنخواہوں کی ادائیگی کے لیے کابینہ نے بار کے فکسڈ ڈیپازٹ فنڈز کی دو ٹی ڈی آر جو کہ مبلغ 85 لاکھ اور65 لاکھ کی ہیں ان میں سے 65 لاکھ کی ٹی ڈی آر کیش کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔
بار کی قیادت نے اپنے اس انتہائی اہم اجلاس میں کنٹینوں کے احتساب، ہائی کورٹ میں نادرا، پاسپورٹ آفس اور ڈرائیونگ لا ئسنس کے سلسلے میں بھی ضابطوں پر عمل درآمد اور خواتین وکلاء کی سہولت کے لیے ڈے کئیر سنٹر بنانے جیسے مثبت فیصلے بھی کیے لیکن ہمیں تشویش مجبوری میں فکسڈ ٹی ڈی آرکی فروخت کے فیصلے سے ہے۔ اس سلسلے میں وفاقی اور پنجاب کی صوبائی حکومت کومالی بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔وجہ یقینا موجودہ حالات میں بار کی قیادت کی طرف سے تحریک انصاف کی قیادت کے خلاف سابقہ حکومت کے مختلف فیصلوں پر تنقید ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وطن عزیز میں آئین اور قانون کا بول بالا ہونے سے ہی حکومتوں اداروں اور بارز کی قیادت کو عزت ملے گی۔ پاکستان تو قائم ہی قانون کے حوالے سے معاشرے کی قد آور شخصیات جناب قائد اعظم اور علامہ اقبال کی اعلیٰ قیادت کا مرہون منت ہے۔
ہماری رائے میں اب جب کہ وفاق میں بھی نگران حکومت آ چکی ہے اور پنجاب میں بھی نگران حکومت ہے تو نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ اور نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کو بنچ اور بار کی تاریخ میں اپنے نام کے اچھے تذکرے کے لیے برسوں سے ملنے والے لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے فنڈز کی ریلیز کا حکم دینا چاہیے۔ سرکاری فنڈز کسی بھی بار کے عہدیدروں کے لیے نہیں ہوتے بلکہ پوری بار کے لیے ہوتے ہیں۔ بار کے ہزاروں ارکان کے لیے روایتی فنڈز روکنے کا فیصلہ تاریخ میں لکھا جائے گا اوراس فیصلے کو اچھے لفظوں سے یاد نہیں کیا جائے گا۔ یہ انصاف کا تقاضا بھی ہے اور اداروں کے مابین مزید غلط فہمیوں کے ازالے کا تقاضا بھی ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ حکومت کی سطح پرایسا فیصلہ ہنگامی بنیاد پر کیا جائے گا تاکہ بار کے فکسڈ ڈیپازٹ ٹی ڈی آر کے کیش کرانے کی نوبت نہ آئے اور بار کے ملازمین کی تنخواہوں اور دوسرے بہت سے اخراجات کی ادائیگی معمول کے مطابق ہو سکے۔