پاکستان اور اشرافیہ
شروع دن سے ہی یہ فلسفہ ہماری نس نس میں رچ بس گیا ہے کہ ہم اپنی ہی لگائی گئی آگ کو پانی کی بجائے بارود سے بجھانے کی کوشش کرتے ہیں. ہم عقل و فہم کی تہیں کھولنے کی بجائے طاقت کے استعمال کو ترجیح دیتے ہیں. طاقت کے استعمال میں بھی پروفیشنلزم کی بجائے انا، ضد، احساسِ تفاخر اور ہٹ دھرمی کو فوقیت بخشتے ہیں. لاکھ ہماری جگ ہنسائی ہو، ہمیں پرواہ نہیں یوتی. ہم حالات سے بری طرح پٹ جائیں، ہمیں ندامت نہیں ہوتی. ریاستی دستور اور ملکی قانون کو ہم اپنی جوتی کی نوک پر لیں، ہمیں شرمندگی نہیں ہوتی. قوم کے سود و زیاں ہماری نام نہاد عقل کل کے سامنے بے بسی کی تصویر پیش کریں، ہمیں تلملاہٹ نہیں ہوتی. بڑے سے بڑا سانحہ گزر جائے، ہماری آنکھ نم نہیں ہوتی اور غلطی پہ غلطی کرتے چلے جائیں، ہمیں بیزاری نہیں ہوتی۔
اگرچہ دھونس، طاقت، انا، ضد، ہٹ دھرمی اور دستور شکنی کے اِس عمل میں ہمیں کامیابی کبھی بھی نصیب نہیں ہو سکی مگر کیا مجال کہ ہماری روش میں سرِ مو فرق آیا ہو، ہم نے اپنی غلطیوں سے کچھ سیکھا ہو، اپنے پراگندہ ماضی کی چھان پھٹک کی ہو اور مستقبل میں بہتری لانے کے اوصاف پیدا کئے ہوں. ہم ذاتی مقصد کے حصول کیلئے کبھی کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے مگر ہم من حیث القوم ریاستی نفع و نقصان سے مکمل طور پر بے نیاز ہو جاتے ہیں. یوں ہم دِلخراشیوں اور زبوں حالیوں کا عملی نمونہ بن کر دنیا کیلئے تفریح، ٹھٹھے اور بہلاوے کا کام آتے ہیں. جب زمانہ ہم پر ہنستا ہے تو چہ جائیکہ ہم شرمندگی اور خجالت محسوس کریں، ہم کھیل تماشے کو اور بڑھاوا دیتے ہیں اور اِس امر کی تصدیق کر دیتے ہیں کہ ہم نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھنا اور نہ ہی اِس سلسلے میں کوئی کوشش کرنی ہے۔
تاریخ سو بار خود کو دہرائے، ہم نے اپنا قبلہ درست نہیں کرنا اور نہ ہی کسی قسم کی پیش رفت کرنے کی روش اپنانی ہے. ہم دنیا کی شائید واحد قوم ہیں جو تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ایک ہی غلطی بار بار دہرا کر بھی ذرا سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتی. یوں لگتا ہے جیسے ہماری سوچنے سمجھنے کی تمام تر صلاحیتیں سلب ہو کر رہ گئی ہوں یا کر دی گئی ہوں. ہم کچھ گروہوں یا گروپوں کی اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کیلئے آبیاری کرتے ہیں اور جب یہ بوتل کے جن کی طرح قابو سے باہر ہوتا ہے تو پھر سانحہ ماڈل ٹاؤن، سانحہ 9 مئی اور سانحہ جڑانوالہ پیش آتے ہیں جن کی وجہ سے پوری دنیا میں ہماری تنگ نظری اور عدم برداشت کے چرچے ہوتے ہیں. اگر مستقبل میں اِس طرح کے معاملات کا ادراک نہ کیا گیا تو ہم اقوامِ عالم میں اقلیتوں کے حقوق پر بات کرنے کے بھی قابل نہیں رہیں گے۔
بہت سی قباحتوں میں سے ایک بنیادی خرابی عوام پر اشرافیہ کی مضبوط گرفت ہے. اِس نے زندگی کے ہر میدان میں اپنے نوکیلے پنجے گاڑ رکھے ہیں. نیم بسمل رعایا پھڑک تو سکتی ہے مگر نوکیلے اور مضبوط پنجوں سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتی. بعض دفعہ تو پھڑکنے کے عمل کو بھی گستاخی سمجھا جاتا ہے. سوکس کے علم کے مطابق یہ سیاسی اشرافیہ، معاشرتی اشرفیہ، قومی اشرافیہ، مذہبی اشرافیہ، فوجی اشرافیہ اور ثقافتی اشرافیہ پر مشتمل ہوتی ہے، اشرافیہ جتنی مضبوط اور خوش حال ہوگی عوام اتنے کمزور، ناتواں اور مفلوک الحال ہوں گے۔
گو اشرافیہ کی مختلف اقسام بعض اوقات ایک دوسرے سے بر سرِ پیکار بھی ہو جاتی ہیں. اِس سر پھٹول کا بنیادی مقصد اپنی موجودگی کا احساس دلانا اور اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہوتا ہے. اِس میں ملک و قوم کا مفاد ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔
اقوامِ عالم کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ دنیا میں بادشاہت کے زوال کے اسباب میں ایک سبب اشرافیہ کا طاقتور ہونا بھی تھا. ترکی میں سیاسی اور فوجی اشرافیہ کی عملداری رہی ہے اور فوجی اشرافیہ کا سیاسی اشرافیہ پر غلبہ رہا ہے مگر اب صورتحال یکسر تبدیل ہو چکی ہے. بنگلہ دیش میں بھی جب سویلین بالا دستی کو عروج نصیب ہوا تو ملک معاشی اور سیاسی طور پر ترقی کی راہ پر گامزن ہو گیا. اِس وقت عالمی درجہ بندی میں بنگلہ دیش کو چوبیسویں معاشی پوزیشن حاصل ہے. اللہ کرے کبھی ہمارے سوئے ہوئے نصیبوں کی بھی باری آئے۔
اشرافیہ معاشرے اور اسکے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں مکمل طور پر آہنی گرفت میں لے کر سٹیٹس کو کی کیفیت میں مبتلا رکھتی ہے اور اکثریت کو دکھ، تکالیف، پریشانیاں اور مفلوک الحالی مستقل بنیادوں پر عطا کر دیتی ہے. ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی 24 کروڑ کی آبادی میں سے 99 فیصد عوام غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ ایک فیصد اشرافیہ طبقہ پاکستان کے وسائل پر قابض ہے۔ یہ اشرافیہ اور ان کی کمپنیاں پاکستان میں اپنی مرضی کے مالیاتی قوانین بنواتی ہیں اور وسیع پیمانے پر مالی مفادات سمیتی ہیں۔
گزشتہ حکومتوں میں آٹے اور چینی کے بحرانوں اور آئی پی پیز اسکینڈلز کو مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے.ہمارے ہاں اشرافیہ ملک و قوم کے ساتھ قومی اور بین الاقوامی سطح پر جو کھلواڑ کرتی ہے اس کو عوام سے چھپایا جاتا ہے. عوام کے کان میں اس کی بھنک تک نہیں پڑنے دی جاتی۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب جنرل ضیا الحق کے دور حکومت میں ذوالفقار علی بھٹو کا عدالت میں مقدمہ زیرِ سماعت تھا۔ سیاسی وابستگی سے قطع نظر، عوام الناس کی اس کیس میں دلچسپی دیدنی تھی۔ چونکہ ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی اس وقت کی سرکار کا دم چھلہ بنے ہوئے تھے، سو کیس سے متعلق آگاہی حاصل کرنے کیلئے لوگ رات کے وقت ریڈیو پر بی بی سی کی اردو سروس سے خبریں اور سیربین سنا کرتے تھے۔ آج بھی ہمیں اپنے سرکاری ذرائع ابلاغ پر رتی بھر اعتبار نہیں ہے۔ اب بھی ملکی حالات سے مستند آگاہی غیر ملکی میڈیا سے ہی حاصل ہوتی ہے۔
حکومتیں بدلتی ہیں مگر چہرے وہی رہتے ہیں اور پالیسیاں بھی وہی چلتی ہیں. بدبودار نظام میں بہتری تو نہیں آتی بلکہ ہر بار تعفن میں مزید اضافہ ضرور ہو جاتا ہے. یقین جانئے! اِسی عمل میں اشرافیہ کی کامیابی اور عوام کی پسماندگی کا راز چھپا ہوا ہے. جب تک اِن اشرافیہ کی نظام پر گرفت مضبوط ہے. امیر اور غریب کے درمیان فرق بڑھتا چلا جائے گا. امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر ہوتا چلا جائے گا۔
٭…٭…٭