صدر کے ٹوئٹ نے آئینی ذمہ داریوں کے حوالے سے سوالات اٹھا دیئے
اسلام آباد(چوہدری شاہداجمل) صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے ٹوئٹ نے ان کی آئینی ذمہ داریوں کے حوالے سے سوالات اٹھا دیئے ہیں،آئینی و قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر مملکت کی پسند و نا پسند اپنی جگہ پر لیکن وہ اپنی آئینی ذمہ داریاں آئین میں طے شدہ طریقہ کارکے مطابق ادا کر نے کے پابند ہیں ،یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا اور منفرد معاملہ ہے جس کے آئینی اور فوجداری پہلو ہیں ،بلوں کے معاملے پر اپنے تحفظات کا اظہار کر نے کے حوالے صدر مملکت کا ذاتی ٹوئیٹر اکاﺅنٹ کا استعما ل بھی یہ ظاہر کر تا ہے کہ یہ رائے ڈاکٹر علوی کی ذات کی ہے نہ کہ بطور صدر آئنی عہدے کی،'نوائے وقت''سے گفتگو کرتے ہوئے اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کے صدر چوہدری قیصر امام نے کہا کہ یہ معاملہ دو ایشوز پید اکر تا ہے اس کا ایک پہلو آئینی ہے اور ایک کریمنل لا کے تحت آتا ہے ،آئینی معاملہ ملکی تاریخ کا اپنی نو عیت کا پہلا معاملہ ہے آئین کہتا ہے کہ صدر کا اختیار ہے کہ وہ دستخط کر دے اور بل کی توثیق کر دے یا وہ اسے اپنے تحفظات کے ساتھ واپس بھیج دے اور اگر صدر دستخط نہ بھی کرے اور آئنی مدت جو کہ دس روز ہے گزر جائے تو بھی یہ قانون بن جائے گا ،انہوں نے کہاکہ صدر کو یہ بل پارلیمنٹ کی طرف سے بھجوایا گیا ہے اور صدر مملکت اس پارلیمنٹ کا حصہ ہے لیکن کمزور حصہ ہے اس لیے صدر جب بھی بل پر کوئی فیصلہ آئینی لحاظ سے کرے گا تو اس پر کچھ نہ کچھ لکھ کر اسے پارلیمان کو بھیجے گا ،صدر مملکت کے ٹوئیٹ سے یہ بات ظاہر ہو رہی ہے کہ یہ قانون تو بن گیا ہے لیکن میں اس پر دستخط نہیں کیے اس لیے میں اس کا حصہ نہیں ہوں،انہوں نے کہا کہ یہ صدر کی طرف سے 'فیس سیونگ''کی کوشش لگتی ہے کیونکہ صدر جس کو چیز کو ناپسند بھی کرتے ہوں لیکن اس کے بارے میں اپنی آئینی ذمہ داریوں کو نبھانے کے پابند ہیں ۔سینئر قانون دان عمران شفیق نے کہاکہ صدر پارلیمنٹ کی طرف سے بھجوائے گئے کسی بل پر دستخط کر کے اس کی توثیق کر ے یا اس پر دستخط نہ کرے اور بل کو واپس بھجوانے کی مدت گزر جائے تو وہ قانون بن جا تا ہے اگر صدر مملکت اس بل کو اپنے تحفطات کے پاس واپس بھجوا دے تو وہ قانون نہیں بنتا لیکن جب صدر مملکت کہہ رہے ہیں کہ میں نے اپنے سٹاف سے کہا کہ وہ ان بلوں کو بغیر دستخطوں کے واپس بھجوا دیں اور وہ واپس نہیں بھجوایا گیا تو آفس سٹاف نے جرم کیا یہ انتہائی اہم مسئلہ ہے اس سے پاکستان میں آئینی اور قانونی سوال اٹھ رہاہے کہ اگر ریاست کا سربراہ حکم دے اور اسے نہ مانا جائے تو یہ ایک جرم ہے ،ابھی تک کا صدر کا عمل یہ رہا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کی طرف سے بھجوائے گئے بلوں کی توثیق کر دیتے تھے یا پھر اپنے تحفظات کے ساتھ واپس بھیج دیتے تھے،صدر کا عہدہ آئینی عہدہ ہے جو وفاق کی علامت ہے صدر کا انتخاب پارلیمان کر تا ہے اس معاملے کی آزادانہ تحقیقات ہو نی چاہیئںاس کا نوٹس لیا جائے اور صدر مملکت کو خود بھی اس معاملے کی تحقیقات کا آغاز کر نا چاہیئے یہ کہہ کر معاملے کو چھوڑ دینا کہ صدر جھوٹے ہیں یا سچے درست نہ ہو گا یہ معاملہ سائفر سے بھی کہیں زیادہ سنجیدہ نو عیت کا ہے کیونکہ ایک چیز ملک کا قانون بن گیا ہے اور صدر مملکت کہہ رہے ہیں کہ میں نے اس پردستخط ہی نہیں کیے اور میں اس سے متفق نہیں ہوں،
سوالات