• news

آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ: نئی بحث کا آغاز ہوگیا

پاکستان ان دنوں عجیب و غریب قسم کے بحرانوں کی لپیٹ میں ہے۔ ایک طوفان تھمتا نہیں ہے کہ دوسرا پیدا ہو اجاتا ہے۔ ابھی دو روز پہلے یہ بتایا گیا تھا کہ صدر مملکت نے آفیشیل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ میں ترامیم کے دو الگ الگ بلوں کی توثیق کر دی ہے جس کے بعد دونوں بل ایکٹ کا درجہ اختیار کر گئے ہیں۔ دونوں ایکٹ نافذ ہوتے ہی ان پر عمل درآمد بھی شروع ہوگیا اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے سائفر گمشدگی کیس میں سابق وزیر خارجہ اور پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو اسلام آباد سے گرفتار کرلیا جبکہ عمران خان کو اس کیس میں بھی گرفتار کر لیا گیا۔ یہ گرفتاری وفاقی پولیس کی مدد سے عمل میں آئی جس کے بعد شاہ محمود قریشی کو ایف آئی اے ہیڈکوارٹرز منتقل کردیا گیا۔ گرفتاری جس مقدمے کے تحت ہوئی وہ 15 اگست کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت درج کیا گیا۔ ابتدائی اطلاعی رپورٹ یا ایف آئی آر کے متن کے مطابق، سابق وزیراعظم اور سابق وزیرخارجہ نے سائفرمیں موجود اطلاعات غیرمجاز افراد تک پہنچائیں اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا۔ ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ سابق وزیراعظم اور سابق وزیرخارجہ نے مذموم مقاصد اور ذاتی فائدے کے لیے حقائق کو مسخ کیا اور دونوں نے ریاست کے مفادات کو خطرے میں ڈالا، مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے مندرجات کے غلط استعمال کی سازش کی گئی۔
ایک طرف تو یہ سارا معاملہ چل رہا ہے اور دوسری جانب صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے مذکورہ دو بلوں پر دستخط کرنے کی تردید کردی ہے۔ سماجی رابطے کے ذریعے ٹوئٹر (اب ایکس) پر جاری بیان میں ان کا کہنا ہے کہ ’میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے آفیشل سیکرٹس ترمیمی بل 2023ء اور پاکستان آرمی ترمیمی بل 2023ء پر دستخط نہیں کیے کیونکہ میں ان قوانین سے متفق نہیں تھا۔ میں نے اپنے عملے سے کہا کہ وہ بغیر دستخط شدہ بلوں کو مقررہ وقت کے اندر واپس کر دیں تاکہ انھیں غیر مؤثر بنایا جا سکے۔میں نے ان سے کئی بار تصدیق کی کہ آیا وہ واپس جا چکے ہیں اور مجھے یقین دلایا گیا کہ وہ جا چکے ہیں۔ تاہم مجھے آج پتا چلا کہ میرا عملہ میری مرضی اور حکم کے خلاف گیا۔ اللہ سب جانتا ہے، وہ ان شا اللہ معاف کر دے گا۔ لیکن میں ان لوگوں سے معافی مانگتا ہوں جو اس سے متاثر ہوں گے‘۔
ادھر، نگران وفاقی وزیراطلاعات و نشریات مرتضیٰ سولنگی نے نگران وفاقی وزیرقانون احمد عرفان اسلم کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدرِ مملکت کی ٹویٹ سے کسی قسم کا کوئی بھونچال نہیں آیا۔ اس موقع پر احمد عرفان اسلم کونے صدرِ مملکت کے اس ٹویٹ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ 27 جولائی کو آرمی ایکٹ میں ترمیمی بل سینیٹ سے پاس ہوا اور 31 جولائی کو قومی اسمبلی نے اس کی منظوری دی، جس کے بعد اسے 2 اگست کو ایوان صدر کو موصول ہوا۔ آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ترمیمی بل یکم اگست کو قومی اسمبلی نے پاس کیا اور پھر سینیٹ نے کچھ آبزرویشن کے ساتھ اسے دوبارہ قومی اسمبلی بھیجا جسے 7 اگست کو دوبارہ پاس کر کے صدر کو بھیج دیا جو انھیں 8 اگست کو موصول ہوا۔ صدرمملکت کے پاس دس دن کا عرصہ موجود تھا کہ وہ یا ان بلوں کو منظور کرتے یا پھر آئین کے آرٹیکل 75 کے تحت اپنی آبزرویشن کے ساتھ دوبارہ پارلیمنٹ بھیج دیتے۔ صدرمملکت کے پاس کوئی تیسرا آپشن موجود نہیں ہے۔ نگران وزیرقانون کے مطابق، صدرمملکت کی طرف سے کبھی پہلے ایسا نہیں ہوا کہ صدر کی طرف سے بغیر دستخط یا آبزرویشن کے کسی بل کو واپس بھیجا گیا ہو۔ احمد عرفان اسلم کا کہنا تھا کہ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ صدرِ مملکت نے نہ تو ان بلوں کی منظوری دی اور نہ ہی ان پر کسی قسم کی کوئی آبزرویشن دی کہ ان پر دوبارہ پارلیمنٹ غور کرتی۔
دوسری طرف، پاکستان مسلم لیگ (نواز) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے صدرِ مملکت کے مذکورہ بیان کے بعد ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ سابق وفاقی وزیر خزانہ اور نون لیگ کے رہنما اسحاق ڈار نے ٹوئٹر پر پیغام میں کہا کہ ’آئین کے مطابق زبانی حکم کو حکم تصور نہیں کیا جاتا۔۔۔ اگر 10 روز میں صدر اعتراضات کے ساتھ بل واپس نہیں بھیجتے تو یہ منظور تصور کیا جاتا ہے۔۔۔ علوی صاحب کو اعتراضات کے ساتھ بل واپس بھیجنے کا تحریری یا ریکارڈڈ ثبوت دینا ہوگا۔‘ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ ’اخلاقی تقاضا یہی ہے کہ عارف علوی مستعفی ہوں کیونکہ وہ اپنا دفتر چلانے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ایسے بیانات کا مقصد محض حمایت حاصل کرنا ہے۔ اس سلسلے میں سابق وفاقی وزیر شیری رحمان نے کہا ہے کہ وہ (یعنی صدرمملکت) یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ان کی ناک کے نیچے بلز پرکوئی اور دستخط کرتا ہے؟ صدر کی وضاحت ان کے صدارتی منصب سنبھالنے کی اہلیت پر سوالیہ نشان ہے، اگر ایسا ہی ہے تو صدر کو اس عہدے سے فوری طور پر مستعفی ہونا چاہیے، اگر آپ کا عملہ آپ کے کہنے میں نہیں تو آپ صدارتی منصب چھوڑ دیں۔
اس حوالے سے پی پی پی کے سینئر رہنما فرحت اللہ بابر کا یہ کہنا درست معلوم ہوتا ہے کہ 100 لفظوں سے بھی کم لکھ کر صدر مملکت نے جوہری دھماکہ کر دیا ہے جس کے اثرات دیرپا ہوں گے۔ اس صورتحال کے اثرات صرف دیرپا ہی نہیں بہت پیچیدہ بھی ہوں گے۔ صدرِ مملکت کا منصب سیاست سے بالاتر ہے اور وہ ریاست کے سربراہ کے طور پر ایک ایسی حیثیت رکھتے ہیں جو دیگر رہنماؤں سے قدرے مختلف اور ممتاز ہے۔ ماضی قریب میں بھی مختلف وجوہ کی بنا پر اس منصب کی توہین ہوتی ہے جو کسی بھی طور قابلِ قبول نہیں۔ ملک اور عوام پہلے ہی گوناگوں مسائل کا شکار ہیں اور وہ مزید مسائل کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتے، اس لیے تمام سٹیک ہولڈرز کو چاہیے کہ وہ اس صورتحال کو مزید بگڑنے سے بچائیں اور جلد اس مسئلے کا کوئی قابلِ عمل حل نکالیں۔

ای پیپر-دی نیشن