اسلام آباد پی ٹی ایم کے جلسے میں ملک اور اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی پر خاموشی کیوں
دوروزقبل اسلام آباد میں پی ٹی ایم کے بدزبان آوارہ ہلڑ بازوں کا جلسہ ہواجس میں ان کے بدزبان رہنماو ں نے جس طرح کی زبان استعمال کی وہ کسی ملک میں اس کے باشندے ہرگز ہرگز استعمال نہیں کرسکتے۔میراثی نما گلوکاروں نے اپنے گانوں ترانوں میں نجانے کن سے کس قسم کی آزادی طلب کرنے کی فرمائش کی۔عابدہ پروین کی طرح گھنگریالے بالوں والے صحت مند علی وزیر نے غیرت اور آزادیکی آڑ میں ترنگ میں آکر ملک اورفوج کے خلاف جوکچھ کہا ، یا کامیڈین مستانہ جیسے سٹائل والے منظور پشین نے مسخرانہ انداز میں پتلونوں سے لے کر چمڑا اتارنے کی دھمکیاں دیں وہ نہایت شرمناک توتھی ہی ، مگر یہ بی بی ایمان مزاری کو کیاہوا اسے کس نے کاٹ لیا کہ وہ بھی ان کے جلسے میں جاکر انہی کے رنگ میں رنگی گئی۔ خاتون ہونے کے باوجود انہوں نے ملک اورفوج کے حوالے جوکچھ کہا اس سے ان کی غلط تربیت کا اندازہ ہوتاہے۔ یہ اچانک انسانی حقوق کے نام نہاد دائرے سے نکل کروہ جس زبان میں زہر اگل رہی تھیں وہ سب زیادہ تکلیف دہ تھا۔
انہیں کم از کم یہ خیال رکھنا چاہیے کہ جو لوگ اپنی عورتوں کو سات پردوں میں بٹھا کررکھتے ہیں وہ بقول انکیایک ظالم وجابر حکمران صوبے کی ایک پنجابن کو کسطرح اپنے جلسوں میں بلاتے ہیں اور و ہ تقریر کے شوق میں چلی جاتی ہیں بہترہے آئندہ وہ شرط رکھیں کہ جب تک منظور پشین کی علی وزیر کی بیگمات اورانکے خواتین شرکا کی معقول تعداد جلسے میں نہیں ہوگی وہ تقریر انہیں کریں گی۔ اس سے انہیں پی ٹی ایم کی انسانی حقوق مردوزن کی برابری ومساوات کی ساری حقیقت سامنے آجائے گی۔ رہی بات حکومت کی تو وہ کس طرح دارالحکومت میں یہ سب کچھ سن رہی تھی پی ٹی ایم کی غنڈہ گردی گالیاں اور اسلام آباد میں افغانستان ونام نہاد پشتونستان کے جھنڈ ے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرتی رہی ہے۔ یہ افسوس اورشرم کامقام ہے۔ فتنے کو پھیلنے سے پہلے اسکا سرکچلنا ہی بہتر رھتاہے۔ شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کی موت پر آنسو بہانے والوں کو قدم قدم پر جانوں کانذرانہ دینے والے جوان کیوں نظر نہیں آتے۔ الٹایہ لوگ ان کے خلاف بدزبانی کرتے ہیں۔ جو ناقابل برداشت ہے۔
٭…٭…٭
میٹرک پوزیشن ہولڈر طالبہ مالی حالات کے سبب تعلیم چھوڑنے پرمجبور
پڑھا لکھا پاکستان اور پڑھا لکھا پنجاب کے خوش کن نعرے کبھی ہرجانب گونجتے ہوئے اچھے لگتے تھے۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ ان نعرے کا بھی وہی حشر ہوا جوخاندانی منصوبہ بندی اور پولیو سے پاک پاکستان کے نعروں کاہوا۔ کئی عشرے گزرگئے مگر ابھی تک نہ ہم آبادی کنٹرول کرسکے نہ ہی پولیو فری پاکستان کاخواب پورا کرسکے۔ اب ایسا ہی کچھ پڑھا لکھا پنجاب کے نعرے کابھی ہوتانظر آرہاہے۔ پنجاب کے کروڑوں بچے اول توسکول داخلہ ہی نہیں لیتے۔ لاکھوں پرائمری سیشن میں ہی سکول چھوڑ جاتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ غربت ہے۔ والدین سکولوں کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے۔ سرکاری سکول مفت تعلیم دیتے ہیں مگر وہاں اساتذہ پڑھائی پہ کم مارکٹائی پرزیادہ زوردیتے ہیں۔ پرائیویٹ سکولز کی فیس کون دے۔ اس لئے بچوں کی بڑی تعداد تعلیم سے دورہوجاتی ہے۔ اب ڈی جی خان کی اس طالبہ کو ہی دیکھ لیں جس نے نہایت محنت سے میٹرک کے امتحان میں پوزیشن حاصل کی۔ سب نے واہ واہ کر کے اسکی حوصلہ افزائی توضرور کی۔ مگر اب وہ کالج میں داخلہ اس لئے نہیں لے سکتی کہ نجی کالجز کے اخراجات زیادہ ہیں اور سرکاری کالجز میں تعلیم اورسہولتیں دستیاب نہیں۔ کاش بزدار صاحب نے اپنے علاقے میں ہی سکولوں کا لجوں کی حالت بہتربنائی ہوتی یہ وہ علاقہ ہے جہاں تعلیمی پسماندگی زیاہ ہے مگر کیا کرلیا انہوں نے اپنے علاقے کی ترقی پہ کم اور اپنی ترقی پہ زیادہ توجہ دی۔ کیا علاقہ کی انتظامیہ اوراہل ثروت کے دل یہ سن کرپڑھ کر پگھلتے نہیں کہ ایک ہونہار بچی مالی بدحالی کی وجہ سے تعلیم جاری رکھنے سے قاصر ہے۔ پاکستانی توویسے ہی بڑے دیالو ہیں توپھر امید ہے اب بھی بہت سے صاحب دل آگے بڑھ کر اس بچی اور اس جیسے ھزاروں بچوں کا مستقبل سنورسکتے ہیں۔
٭…٭…٭
جعفر ایکسپریس کا گارڈ انچارج اور الیکٹرک ایگزامینر منشیات سمگل کرتے گرفتار
بلوچستان کے حوالے سے پہلے ہی بسوں اور ٹرینوں کے ذریعے سمگلنگ کی شکایات عام تھیں کہ اب یہ نیا معاملہ سامنے آیا ہے۔ مسافر یعنی بلوچستان جانے اور آنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ سندھ ہو یا پنجاب یا خیبر پی کے وہاں سے سڑک کے راستے کس طرح جگہ جگہ ناکوں پر چیکنگ ہوتی ہے۔ مگر اس کے باوجود سمگلر مافیا منتھلیاں دے کر اپنا کاروبار جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان کی وجہ سے عام مسافروں کوبھی گھنٹوں اذیت اٹھانا پڑتی ہے۔ یہی حال ٹرینوں کا ہے۔ اب تولے دے کر صرف جعفرایکسپریس ، کوئٹہ تا پشاور اور بولان میل کراچی تا کوئٹہ چلتی ہے۔ صرف یہ دو ٹرینیں بھی سمگلنگ کے حوالے سے بدنام ہیں۔ ویسے تو ان کی سخت چیکنگ بھی ہوتی ہے۔ سٹیشنوں پر سخت تلاشی ہوتی ہے۔ یہی حال بس اڈوں پر ہوتا ہے مگر جب کہتے ہیں ناں کتی بھی چوروں سے ملی ہو تو کیا ہو سکتا ہے۔ جب بسوں اور ٹرینوں کا عملہ ہی سمگلروں کے ساتھ ملا ہو تو کوئی کیا کرے۔ ریلوے پہلے ہی ناقص کارکردگی کی وجہ سے کیا کم بدنام ہے کہ اب اس کی عملے کی سمگلنگ سے اس کی نیک نامی میں مزید اضافہ ہو گا۔ جعفر ایکسپریس کے انچارج گارڈ اور الیکٹرک ایگزمینر کے بکسوں سے جس میں سرکاری سامان ہوتا ہے یہ چرس اور افیوں کہاں سے آ کر چھپ گئی۔ وہ بھی 4 کلو چرس اور 2 کلو افیون ہے تو غلط بات مگر حیرت ہے یہ وزن بہت کم ہے۔ ورنہ کم از کم 10 کلو چرس 10 کلو افیون کو باسانی یہ اپنی پیٹی میں چھپا کر لاسکتے تھے۔ اب اس بات کی بھی تحقیق ہونی چاہیے کہ یہ مقدار کم کیوں تھی اب امید ہے مسافروں کے ساتھ ریل اور بس عملے کی بھی سخت چیکنگ ہو گی۔ حالانکہ زیادہ سامان بسوں اور ٹرینوں کے نٹ بولٹ کھول کر ماہر سمگلر اور عملے والے پہلے بھی محفوظ مقامات پر چھپا دیتے ہیں اس طرح تو پوری ٹرین اور بسوں کی تلاشی بھی ضروری ہے۔
٭…٭…٭
خیبر پی کے سے پی ٹی آئی کا صفایا کر دیں گے: پرویز خٹک
نوشہر میں گزتہ شب ہونے والا تحریک انصاف پارلیمنٹرین کا جلسہ اگر بھت موثر کن نہ تھا تو زیادہ مایوس کن بھی نہیں کہہ سکتے۔ تحریک انصاف کے گڑھ میں بالفاظ دیگر اس کے گھر میں گھس کر اپنی طاقت کا مظاہرھ کرنا بہر حال دل گردے کی بات ہے۔ اس میں پرویز خٹک بہر حال کامیاب ضرور ہوئے ہیں۔ یہ علاقہ بھی پرویزخٹک کا آبائی حلقہ ہے جسکا انہوں نے بڑا فخر سے ذکرکرتے ہوئے وہاں ہونے والے انکے دورکے ترقیاتی کاموں سے عوام کو بھی آگاہ کیا۔ اب دیکھنا ہے کہ یہ جلسہ بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوتا ہے یا نہیںاس کے دیکھا دیکھی باقی وہ ساتھی جو پی ٹی آئی علیحدہ ہوئے جنہوں نے اپنی پارٹی بنائی ہے وہ بھی ہمت کر کے اپنے اپنے حلقوںمیں ایسے جلسے کر کے اپنا وجود ثابت کرتے ہیں یا فی الحال خاموش رہتے ہیں۔ پرویز خٹک کے ساتھ سابق وزیر اعلیٰ خیبر پی کے بھی موجود تھے اور چند دیگر بڑے ؟؟؟بھی۔ ویسے بھی ان کا دعویٰ ہے کہ ان کو 40 سے 50 تک الیکشن جیتنے والے ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ یعنی وہ الیکشن میں موثر سیاسی قوت ثابت ہو سکتے ہیں۔ آگے خداجانے کہ الیکشن ہوتے بھی ہیں یانہیں اگر ہوتے ہیں تو کب ہوتے ہیں۔ اس بار خیبر پی کے سے عمرانی بیانیئے کا نام و نشان مٹانے والی بات تو اس میں خواہ مخواہ پرویز خٹک زیادہ جذباتی ہو رہے ہیں۔ خیبر پی کے میں ابھی بھی امین گنڈاپور، علی محمد خان۔ شہریار آفریدی اور مراد سعید موجود ہیں جو اپنے اپنے علاقوں میںبازی الٹ سکتے ہیں۔ اب یہ قسمت کی بات ہے کہ کون میدان میں رہتا ہے اور کون کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں۔ یہ سیاسی سرکس ہے یہاں سب اپنی اپنی بازیگری دکھائے ہیں۔ مگر یاد رہے سب سے داد اورتالیاں ہمیشہ رنگ ماسٹر کے حصے میں آتی ہیں جو ہاتھی ، گھوڑے اور شیروں کو کرتب دکھانے پر تیار کرتا ہے…