مجذوب اعظم!
ماہر نفسیات و منشیات ڈاکٹر صداقت علی کہتے ہیں پاکستان میں کسی کو نفسیاتی مریض یا پاگل کہہ دینا قابل اعتراض عمل ہے،اس لئے میں لفظ مجذوب استعمال کرتا ہوں، باہر سے بے خبر ہوکر حالت بے اختیاری میں مبتلا ہونیوالے کو مجذوب کہتے ہیں، نشے اور نفسیات کے مریضوں کا علاج کرتے کرتے کئی دہائیاں گزر گئیں، ان میں ہر قسم کے مجذوب آئے، مجذوب کی مرکزی دو اقسام ہیں، عام مجذوب اور چالاک مجذوب، پہلی قسم میں ان پڑھ اور نیم پڑھے لکھے ہوتے ہیں، چونکہ انھوں نے نہ کبھی مالی نہ اخلاقی ذمہ داریوں کو سمجھا، نہ اپنایا اور نہ ہی پورا کرنیکی کوشش کی ہوتی ہے اس لئے گھر والے انھیں ترک کردیتے ہیں، لہٰذا کھانے پینے سونے کی ضرورت پوری کرنے کیلئے وہ اکثرمزاروں، اور درباروں کے قریب ڈیرہ ڈال دیتے ہیں، جہاں وہ بھیک مانگنے کامنافع بخش پیشہ اپنا کر نشے میں پڑجاتے ہیں اور آخرکار مکمل نفسیاتی فلم بن جاتے ہیں۔
پہلی قسم میں ایسے مجذوب بھی ہوتے ہیں جو نشہ بازی میں مبتلا ہوجاتے ہیں جو نشہ پورا نہ ہو نے پر گھر کی چیزیں چوری کر کے بیچ ڈالتے ہیں، ان میں ایسے مجذوب بھی ہوتے ہیں جو کسی چوک کسی سڑک پر بھیک کے حصول کیلئے توجہ دلائو نعرے یا اول فول اشارے کرتے مصروف دکھائی دیتے ہیں، کوئی پیشہ ور ٹھیکیدار انھیں اللہ ہو اور حق اللہ کا نعرہ دیکر پیسہ کمانے کی مشین بنا دیتا ہے، بعض مجذوب تو عادتاً کپڑوں سے بھی بے نیازہوکر سائیں لوک کے عہدے پر براجمان ہو جاتے ہیں اور دوران سروس کسی سڑک کنارے مر جاتے ہیں، ۔
سب سے خطرناک چالاک مجذوب ہوتے ہیں، یہ مجذوب بظاہر صاف ستھرے، پڑھے لکھے اور خوبصورت دکھائی دیتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ انتہائی قسم کے نفسیاتی خلل میں مبتلا ہوتے ہیں، مختلف عہدوں پر براجمان یہ چالاک مجذوب مخصوص مقاصد حاصل کرنے کیلئے عہدہ، اختیار اور پیسہ سب کچھ استعمال کرتے ہیں، یہ تسکین حاصل کرنے، نمایاں بننے اور نمایاں دکھنے کیلئے ہر قدم اٹھاتے ہیں، یہ انتہائی فلمی ہوتے ہیں، اپنی ذات میں یہ کسی سیریل کلر سے کم نہیں ہوتے ہیں، رنگینی، تیزی اور تبدیلی انکی زندگی کا طرۂ امتیاز ہوتی ہے، یہ معاشرے میں نارمل لوگوں کی طرح ہی رہتے دکھائی ہیں لیکن انتہائی ہوشیاری سے اپنے اہداف چھپائے رکھتے ہیں، حقیقت تب پتہ چلتی ہے جب انکے منفی کارنامے سامنے آنا شروع ہوتے ہیں۔ جنس سے لیکر منشیات تک، پہنچ سے لیکر اختیار تک ہر قسم علت اور نشے کی انتہا تک جانا انکی ضرورت ہوتا ہے، چالاک مجذوب جب کسی بڑے عوامی عہدے پر پہنچ جاتے ہیں تو ان کے فیصلوں سے ملک دائو پر لگ جاتے ہیں، پہلی جنگ عظیم سے لیکر تیسری جنگ عظیم کی تحلیل نفسی کی جائے تو پتہ چلتا ہے ان جنگوں کے پس منظر میں کوئی نہ کوئی منفی نفسیاتی پہلو چھپا ہوا تھا۔
پاکستان کے موجودہ حالات کا جائزہ لیں تو واضح ہوتا ہے کہ ایک چالاک مجذوب نے پورے ملک میں ایسی بے یقینی اور انتشار کی حالت پیدا کردی ہے جس کو ٹھیک کرنے کیلئے کئی سال لگ جائیں گے، چالاک مجذوب کیلئے اپنے کہے ہوئے الفاظ سے بار بارمکر نا بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے، یہ ہونہیں سکتا کہ کوئی حالت جذب میں ہو تو اسے مادی نشے کی طلب نہ ہوتی ہو، اس حالت میں ہر بار پہلے سے زیادہ نشے کی طلب ہوتی ہے، نشہ پورا کرنے کیلئے وہ ہر طریقہ استعمال کرتا ہے اسکے راستے میں کوئی بھی رکاوٹ آئے تو وہ اسے گرا دیتا ہے، مغربی جمہوریت کی مثالیں دینے والوں سے سوال ہے کہ مغرب سے لیکر روس تک، چین سے لیکر مشرق وسطیٰ تک کیا کوئی مجذوب اعظم اعلیٰ ترین عہدے پر براجمان ہوکر اتنا طاقتور ہوجاتا ہے کہ اسے سیاہ و سفید کرنے سے کوئی روک نہیں سکتا ہے؟ یہاں یہ بھی سوال ہے کہ کیا وہاں کا کوئی مجذوب خاص منصف اپنی مرضی اور کوئی بھی فیصلہ جاری کرکے ریاست کو شدید کمزور کر سکتا ہے؟ ذرا سوچیں وہ سسٹم کس قدر کمزورہوگا جہاں ریاست کے اعلیٰ ترین عہدے پر تعینات مجذوب اعظم سسٹم کے جھول کا فائدہ اٹھا کر نہ صرف من چاہی ملک دشمن پالیسیاں بنا لے بلکہ اس پر عمل بھی کروالے، جسے چاہے جتنا چاہے قرض بطورتحفہ عطا کرے،جتنا مرضی غل غپاڑہ مچا ئے، جہاں چاہیں جلائو گھیرائو کروائے، جس ملک میں بغیر پڑتال مجذوب منصفین نہ صرف تعینات ہو جائیں بلکہ آنکھوں پرواقعی سیاہ پٹیاں باندھ کر مخصوص فیصلے سنایا کریں کوئی انھیں روکنے والا نہیں، سسٹم میں کوئی ایسی گنجائش نہیں کہ بروقت انکی جزا سزا کا تعین کرے، تاریخ سے یہ ثابت ہوا ہے کہ مجذوب کوئی بھی ہو یعنی مجذوب ا صغر ہو یا اکبر یا پھر مجذوب اعظم یہ خود کو ہر ذمہ داری سے مبرا سمجھتے ہیں، کمانا انھوں نے سیکھا نہیں ہوتا ہے البتہ مانگنے کے ہنر میں تاک ہوتے ہیں، تاریخ شاہد ہے کہ ایسے مجذوبوں کی سیاسی موت ہو یا جسمانی اختتام دونوں غیرفطری ہی ہوتے ہیں۔