وفاقی وزیر اطلاعات کا ’نوائے وقت‘ دفاتر کا دورہ
نگران وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مرتضیٰ سولنگی نے ہفتے کے روزنامہ نوائے وقت ہائوس زیرو پوائنٹ میں ’دی نیشن‘ اور ’نوائے وقت‘ کے دفاتر کا دورہ کیا۔ اس موقع پر پرنسپل انفارمیشن آفیسر عاصم کھچی بھی ان کے ہمراہ تھے۔ اس موقع پر وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ہمیں اس وقت پولیرائزڈسیاسی ماحول میں بہتری لانی ہے اور میرا یہ عہد ہے کہ مکمل غیر جانبداری سے امور چلائوں گا، ، مثبت تنقید کا خیر مقدم کروں گا، میرا کسی سیاسی گروپ سے کبھی تعلق نہیں رہا تاہم آئین اور جمہوریت کے حوالے سے میرے خیالات ہمیشہ سے واضح ہیں۔ انھوں نے یقین دہانی کرائی کہ نگران حکومت ملک میں الیکشن کمیشن کے تحت آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کرانے کے عمل میں مکمل مددگار اور معاون ہوگی۔ نگران وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مرتضیٰ سولنگی پرنٹ، ٹی وی اور ڈیجیٹل میڈیا میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں، صحافت سے تعلق رکھنے کے ناتے انھیں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے مسائل کا بھی بخوبی ادراک ہوگا جنھیں ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ مرتضیٰ سولنگی نے جانبدار رہتے ہوئے الیکشن کمیشن کے تحت آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات میں نگران حکومت کی معاونت کا اعادہ کیا ہے۔ آئین کا تقاضا بھی یہی ہے کہ نگران سیٹ اپ ملک میں آئینی مدت کے اندر منصفانہ انتخابات کا انعقاد کروا کر امور حکومت منتخب نمائندگان کے حوالے کردے تاکہ جمہوری نظام احسن طریقے سے چلتا رہے مگر نئی حلقہ بندیوں کا معاملہ اٹھا کر نگران سیٹ اپ کو طول دینے کا جواز نکالا جا رہا ہے جبکہ الیکشن کمیشن پہلے ہی عندیہ دے چکا ہے کہ نئی حلقہ بندیوں کے لیے اسے 4 ماہ درکار ہیں۔ اس سے پہلے انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں۔ اگر نئی حلقہ بندیوں کے تحت ہی انتخابات کرانا ہیں تو ان چار ماہ میں نئی حلقہ بندیوں کا تعین کرلینا چاہیے جو الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری بھی ہے۔ سیاسی و معاشی بحران کے باعث ملک انتخابات میں مزید تاخیر کا متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ عوامی مسائل کا حل عام انتخابات سے ہی جڑا ہوا ہے۔ اس لیے ریاستی اداروں کو نگران حکومت کی ہر ممکن معاونت کرکے ملک میں جلد انتخابات کی راہ ہموار کرنی چاہیے ۔ اس وقت ملک سنگین بحرانوں میں گھرا ہوا ہے، ان بحرانوں سے نکلنے کے لیے ہمیں بین الاقوامی معاونت کی بھی اشد ضرورت ہے جبکہ عالمی ادارے کسی بھی نگران سیٹ اپ سے معاملات طے نہیں کر تے۔ اس لیے نگران حکومت کا سارا فوکس انتخابات کے انعقاد کی طرف ہونا چاہیے۔