• news

برمنگھم:ورلڈبلائنڈکرکٹ گیمز میں پاکستان نے بھارت کو ہرادیا۔

میرانیس نے کیا لاجواب شعر کہاتھا جوآج تک زبان زدعام ہے
کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہاہے 
رن ایک طرف چرخ کہن کانپ رہاہے
بے شک اللہ کے شیروں کی آمد ہی ایسی ہوتی ہے۔ اب اگرچہ اس وقت ذکر پاکستانی بلائنڈ کرکٹ ٹیم کے برطانیہ برمنگھم میں ورلڈ بلائنڈ گیمز میں فاتحانہ انداز میں آغاز  کاہورہا ہے جس میں ہماری قومی بلائنڈ ٹیم نے پہلے ہی میچ میں بھارت کی ٹیم کو میدان کی دھول چٹادی۔ ایک زبردست مقابلے کے بعد حریف ٹیم کو 18رنز سے ہرادیااس سے ہماری آنکھوں والی کرکٹ ٹیم کو سبق سیکھنا چاہیے جو نجانے کیوں بھارتی کرکٹ ٹیم کو سامنے دیکھتے ہی انجانے دباؤ کاشکار ہو جاتی ہے۔انہیں اب شیر بنناہوگا شیر۔جب ہماری بلائنڈ ٹیم خوفزدہ نہیں ہوتی توآنکھیں رکھنے والوں کوتو بالکل نہیں ڈرنا چاہیے۔کرکٹ کے ورلڈ کپ کے مقابلے میں انہیں نڈرہوکر بھارت میں گھس کر بھارتی ٹیم کو چاروں شانے چت کرکے گرانے کا دلیرانہ کام سرانجام دیناہوگا۔ڈراورخوف کو دل سے نکال کرجان لڑاناہوگی۔اگرہماری قومی کرکٹ ٹیم یہ ٹھان لے توپھر کامیابی اس کا مقدربن سکتی ہے۔ اصل مزہ توتب ہی آتاہے جب دشمن کواس کے اپنے میدان میں گھس کر نکیل ڈالی جائے اور فتح کاتاج اپنے سرپہ سجایاجائے۔قوم کی دعائیں اپنی  کرکٹ ٹیم کے ساتھ ہے۔فتح ان کے قدم چومے گی۔
٭…٭…٭
شہباز شریف پارٹی قائد سے ملاقات کے لیے لندن روانہ ہوگئے۔
اب معلوم نہیں یہ ہماری سیاست کا زوال ہے یاعروج کہ ہمارے سیاست کبھی دبئی اورکبھی لندن میں جمع ہوکر ملک کے سیاسی مستقبل کے فیصلے کرتے ہیں۔ کیاہی اچھاہوکہ ہمارے تمام سیاستدان برطانیہ ،امریکہ،فرانس سے آکسیجن حاصل کرنے کی بجائے مددمانگنے کی بجائے۔اسلام آباد، لاہور، کراچی، پشاوراور کوئٹہ میں بیٹھ کر  ایک  دوسرے کے سامنے اپنے دکھ درد کھولتے اورملکی حالات پر سیر حاصل بحث مباحثہ کرکے اپنے اپنے دل کاغبار نکالتے اور اچھے فیصلے کرتے یہ روایت اگرہمارے ہاں پڑجائے توپھر ہمیں باہرکسی کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہی نہ پڑے گی۔جوکام باہربیٹھ کرکیے جاسکتے ہیں وہ ملک میں بیٹھ کرکیوں نہیں ہوسکتے۔ اب میاں شہباز شریف لندن صرف اس لیے جارہے ہیں کہ انہیں پارٹی کے قائد سے ملاقات کرکے گائیڈ لائن لے کر آئندہ سیاسی نقشے میں رنگ بھرنا ہے۔بہتر تویہ ہے یہ آنیاں جانیاں چھوڑکر وہ میاں نوازشریف کو واپس آکر قیادت سنبھالنے اور سیاسی میدان میں مقابلہ کرنے پر آمادہ کریں۔ویسے بھی وہ آنے کی تیاری کر ہی رہے ہیں۔یوں ملک کی ساری قیادت گھرمیں جمع ہوگی۔ آئندہ حوالے یاالیکشن کے حوالے سے جوکرناہے اس کافیصلہ کرے۔گھرکی بات گھرمیں ہی اچھی لگتی ہے۔ ورنہ کوئی لندن پلان کاڈھول 
اور کوئی دبئی پلان کاباجا بجاتا رہے گا تو کوئی امریکہ سے برطانیہ سے فرانس سے مددکی درخواست کرتاپھرے گا اور کوئی اداروں سے مددکی آس لگاتا رہے گا کہ وہ اس کی مددکریں۔کم ازکم دوسروں کو اپنے اپنے حدودمیں رہ کر کام کامشورہ دینے والے خود بھی اس پر عمل کرکے تو دکھائیں۔
٭…٭…٭
چین میں پتھروں سے بنی لذیذڈش کی سوشل میڈیا پرمقبولیت
خدارا  یہ ڈش اوراسکو بنانے کی ترکیب جلدازجلد پاکستانی عوام کوبھی بتائی جائے تاکہ وہ اس سے فیض یاب ہوسکیں۔کیونکہ اس وقت ہم تیزی سے پتھر کے دورکی طرف جارہے ہیں۔جوکام مشرف دورمیں امریکہ نہ کر سکاوہ آئی ایم ایف نے موجودہ حالات میں کرکے دکھادیا۔ بے شک گرانی دنیا بھرکامسئلہ ہے مگر ہمارے ہاں یہ مسئلہ نہیں ایک عفریت بن کر ہم پرمسلط کردیاگیاہے۔ جوہماری زندگیوں کونگل رہا ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ دور آزمائش میں اللہ کے آخری نبی اور انکے گھروالوں نے پتھر ابال کر درختوں کی چھال ابال کر پیا۔غزوات میں  صحابہ نے پیٹ پر پتھر باندھ کر مشقت اٹھائی اب یہی حالت پاکستان کے غریبوں کو بھی جھیلنا پڑرہے ہیں۔ماں باپ بچوں کو مارکر خود کشیاں کررہے ہیں اب اگران برے حالات میں پتھروں سے کوئی ڈش بن سکتی ہے تو اس کو استعمال کرنے کوئی مضائقہ نہیں۔چینیوں کی طرح ہم کتے،بلی مینڈک، سانپ، بچھواور چوہے توکھانہیں سکتے۔ بہرحال حلال حرام کاخیال رکھنا پڑتاہے۔رہی بات پتھروں کی تویہ ہم ویسے بھی کھاتے رہتے ہیں۔یہ شعربھی شاید آئی ایم ایف کے لئے ہی ہے۔
تونے جب سے مجھے دیوانہ بنارکھا ہے
سنگ ہرشخص نے ہاتھوں میں اٹھارکھاہے
سواب اگریہ پتھرہماری بھوک مٹاسکتے ہیں۔مزیدارڈش میں استعمال ہوسکتے ہیں تو دیر کس بات کی۔بس یہ بات بھی دھیان میں رہے کہ اس ڈش میں استعمال ہونے والے دیگر لوازمات ومصالحہ جات کہاں سے خریدیں گے۔ جہاں زہر کھانے کے پیسے نہ ہوں وہاں چائنیز ڈش میں استعمال ہونے والی چیزیں جو گراں ہیں کون خرید پائے گا۔امیر لوگ البتہ بڑے شوق سے یہ چائنیز ڈش بھی شوق سے کھاتے پھریں گے۔ نادیدے کہیں کے۔
٭…٭…٭
شاداب خان کی تصویر پرحسن علی کے ٹویٹ پرصارفین کابے جا اعتراض
نجانے کیوں اپنی مادری یا قومی زبان میں بات کرنے سے بہت سے لوگوں کویہ احساس ہوتاہے کہ ہم جاہل اورگنوارہیں۔حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔دلی جذبات کے اظہار کے لیے اپنی ماں بولی سے زیادہ بہتر زبان کوئی اورنہیں ہوتی ہرخطہ کے لوگ اپنی زبان میں بات کرتے ہیں۔کوئی نہیں شرماتا۔ہمارے ہاں احساس کمتری کاشکار لوگ نجانے کیوں اپنی زبان میں بات کرنے پر کیڑے نکالتے ہیں۔اب حسن علی کے بارے میں سب جانتے ہیں وہ ایک زندہ دل کرکٹر ہے جہاں بھی جائے اپنی مزاحیہ حرکتوں سے ماحول بنادیتاہے۔ ٹیم کے سارے کھلاڑی اس سے انجوائے کرتے ہیں۔ گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر انہوں نے اپنے ساتھی شاداب خان کی پیاری تصویر پہ حسب عادت نہایت خوبصورت جذبات کی ترجمانی کرنے والے جملے’’میں صدتے میں واری جاؤں۔ماشااللہ نظرنہ لگے‘‘۔
جیسے جملے لکھے تو کچھ لوگوں کے پیٹ میں مروڑاٹھ گیا کہ عالمی سطح کے کرکٹر کو ایسے نہیں لکھنا چاہیے۔اپنے معیار کاخیال رکھنا چاہیے۔اس پر خودشاداب خان نے ان لوگوں کامنہ بند کرتے ہوئے ایسے فضول کمنٹس سے اجتناب کامشورہ دیا اور کہاکہ’’بڑے فٹبالر میسی جیسے اسٹار کھلاڑی بھی زبردستی انگریزی نہیں بولتے‘‘۔واقعی ہم کیوں اس زبان میں بات کرکے اپنے کو بڑا تیس مار خان ثابت کریں۔ذرادل پرہاتھ رکھ کربتائیں کیا ان جملوں کا کسی اور زبان یاانگلش میں ایسا برمحل اورجذبات سے بھرپور ترجمہ ہوسکتاہے۔ یہ تومکمل دلی جذبات کی ترجمانی کرنے والے جملے ہیں۔ان سے زیادہ برجستہ الفاظ وجملہ کسی اور زبان میں اگر ہوبھی تو90فیصد پاکستانیوں کوکیا خاک اس کی سمجھ آئے گی۔اس لیے فضول تنقید سے بہتر ہے کہ تعریف کے دولفظ بول کر ہی ہم اپنی زبان میں بات کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کریں۔اس میں کیابرائی ہے۔

ای پیپر-دی نیشن