پولیس کے نیک نام افسران
ایک ریاست بغیر حکومت کے تو چل سکتی ہے لیکن بغیر انصاف کے نہیں(حضرت علیؓ)
معاشرے عدل و انصاف سے بنتے ہیں۔ جن معاشروں میں عدل و انصاف بکنا شروع ہو جائے تووہ معاشرے تباہ ہو جاتے ہیں۔ کسی بھی ریاست کی کامیابی میں انصاف کی فراہمی ناگزیر ہے۔کوئی بھی قوم تب تک خوشحالی کی منازل طے نہیں کرسکتی جب تک وہاں کے عوام کو انصاف جیسی بنیادی سہولت میسر نہیں ہوتی۔ آئینِ پاکستان میں بھی عوام کی بنیادی سہولیات میں انصاف کی جلد فراہمی کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اسلام بھی ہر معاملے میں انصاف کی اہمیت کے بارے میں بہت زور دیتا ہے۔ حضرت محمد ﷺ کا ہر معاملے میں انصاف سے کام لینا ہی یہودیوں کو اتنا متاثر کر گیا تھاکہ وہ آپکے پاس اپنی امانتیں رکھواتے اور صادق اور امین جیسے لقب سے پْکارتے۔کوئی بھی معاملہ حل کرنا ہوتا تو حضورﷺ سے سخت دشمنی اور بغاوت رکھنے کے باوجود زیرِبحث معاملہ آپ کے پاس لایا جاتا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ حضرت محمد ﷺ کبھی بھی انصاف کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑیں گے۔معاشرے میں عدل و انصاف کی حکمرانی ہی کامیاب معاشرے کی ضامن ہے۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں بہت سے آئی جی صاحبان تعینات ہوئے۔کچھ نے توعوامی کام سے اپنا نام بنایا اور کچھ نے کھل کر مال بنایا کیونکہ اْن کا مقصد صرف اور صرف دنیاوی زندگی تھی۔ خیر میں اْن کی کردار کشی نہیں کروں گا اور نہ ہی میرا مقصد کسی کی عزت خراب کرنا ہے۔اگر انہوں نے پاکستانی قوم کا پیسہ کھایا ہے تو وہ دِن بھی دور نہیں جب وہ بھی گرفت میں ہوں گے۔پاکستان میں موجود ہر عام و خاص پولیس کے بارے میں کوئی خاص ہمدردی نہیں رکھتا بلکہ اپنا کام نکل جانے کے بعد اْن پر تنقید کے تیر پھینکتاہے۔پولیس کا ادارہ ہمارے معاشرے میں اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر دِن رات عوام کی حفاظت کرنے میں مصروف رہتا ہے۔پولیس ہمارے ہرمعاشرے کی حفاظت کیلئے ناگزیر ہے۔ اگر پولیس معاشرے میں موجود نہ ہو تو سب کا اپنے گھروں سے نکلنا مشکل ہو جائے اور معاشرہ عدم استحکام کا شکار ہوجائے۔
میرا آج کا موضوع آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور صاحب ہیں جن کی تعیناتی نگران سیٹ اپ میں ہوئی تو بہت سے لوگوں نے اْن پر تنقید کے تیر نچھاور کئے۔ڈاکٹر صاحب اپنی سروس کا زیادہ عرصہ ایف آئی اے میں رہے ہیں۔ اْن کی پنجاب میں تعیناتی کے دوران بہت شور مچا یا گیا کہ اْن کو اپنے سینئر پر ترجیح دی گئی ہے جس سے سینئر اور جونیئر کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔ جیساکہ آپ کو یا د ہو گا ماضی قریب میں جب انعام غنی کی بطور آئی جی تعیناتی ہوئی تھی تو پنجاب میں کچھ آفیسرز نے اْن کے ساتھ کام کرنے سے انکار کردیا تھا۔ڈاکٹر عثمان انور نے اپنی تعیناتی کے بعد عاجزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سینئر جونیئر کو عزت دی اور اپنے آپ کو ایک عاجز اور عوام دوست آئی جی ثابت کیا۔
ڈاکٹر عثمان انور نے آئی جی بننے کے بعد جس طرح پنجاب میں روکی ہوئی نچلے درجے کے ملازمین کو ترقیاں دیکر اْن کے ساتھ شفقت کا مظاہرہ کیااْس کی مثال نہیں ملتی۔ جس سے ادارے کا مورال بلند ہوا۔ میں کچھ دنوں سے لندن میں تھا تو مجھے بہت سے پاکستان میں موجود دوست جو پولیس میں ہیں اْن کا کہنا تھا کہ آپ پنجاب پولیس کے کپتان پر بھی لکھیں جنہوں نے پولیس کے لئے وہ کام کیئے ہیں جو پہلے پولیس سربراہ نہیں کر سکے۔ میری ڈاکٹر عثمان انور سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ کیوں نہیں ہوئی اس کا مجھے بھی اندازہ نہیں ہے۔ پنجاب میں بہت سے آفیسرز کے انٹرویو کیئے ہیں جن کے ساتھ اب بھی رابطہ ہے۔کچھ دِن پہلے رانا ایاز سلیم اور لیاقت ملک کو ڈی آئی جی کے عہدوں پرپرموٹ کیا گیا۔ رانا ایاز سلیم جہاں بھی تعینات رہے وہاں کے لوگ اْن کے کام کو نا بھلا سکے چاہے وہ خانیول کے ڈی پی او ہوں یا گجرانوالہ میں سی پی او ہوں۔وہ مخلوق خدا کی خدمت کرنا اپنا اولین فرض گردانتے ہیں۔
یہ بات کسی سے اب ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ڈاکٹر عثمان انور کے ارادے بہت بلند ہیں اس لئے میری درخواست ہے کے وہ تھانوں کا کلچر تبدیل کرکے اْس میں جدت لائیں۔جس طرح دنیا کے دوسرے ممالک اپنی پولیس میں جدیدیت لا کر اپنے ملک سے جرائم کی شرح کم کر چکے ہیں۔ میں نے یوکے میں آکر مشاہدہ کیا کہ جب کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو چند ہی منٹ میں پولیس بغیر کسی انتظار کے اپنا کام شروع کر دیتی ہے جس سے مجرم تک پہنچنا اْن کے لئے آسان ہوجاتا ہے اور پھر جس کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے اْس کو تھانوں میں اتنا ذلیل نہیں ہونا پڑتا جتنا پاکستان پولیس کرتی ہے۔ ایک تو مدعی کے ساتھ ظلم ہو جاتا ہے دوسرا مدعی کے ساتھ وہ حال پولیس تھانے میں کرتی ہے کہ مدعی کیلئے تھانے جانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے۔
آئی جی صاحب کو پولیس کیلئے ایک ہسپتال کی بھی کوشش کرنی چاہیے جہاں اْن کیلئے مفت علاج کی سہولت میسر ہو۔خاص کر ٹریفک وارڈن جو سردی اور گرمی میں موسم کی پرواہ کئے بغیر اپنی ڈیوٹی نبھاتے ہیں۔مختلف قسم کی گاڑیاں گزرنے سے ہیپا ٹائٹس اور دوسری بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں اْن کے علاج کے لئے کوئی ایسا ادارہ ہو جہاں جا کر وہ آرام سے اپنا علاج کروا سکیں تاکہ وہ زیادہ دلچسپی سے اپنی ڈیوٹی سر انجام دیں۔
دو سال پہلے مجھے بھی تھانوں کے چکر لگانے پڑے تو اندازہ ہوا کہ نچلے درجے کے ملازم عام لوگوں کے ساتھ کس طرح کا برتائو کرتے ہیں جس کی وجہ سے پولیس اورعوام میں دوریاں پیدا ہو جاتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پولیس کا منفی رویہ لوگوں کے ذہن میں بیٹھ جاتا ہے۔شاید میرے ساتھ بھی ایسا ہی رویہ اپنایا جاتا اگر اْس وقت ایس ایس پی انویسٹی گیشن عمران کشور میری مدد نہ کرتے۔ڈاکٹر عثمان انور سے مجھے قوی اْمید ہے کہ وہ تھانوں کاماحول تبدیل کرنے کی کوشش کریں گے اور پنجاب پولیس کو دنیا کے دوسرے ممالک کی پولیس کی طرح جدید بنانے کی بھی کوشش کریں گے۔
جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں اسی وقت ایک خبر چل رہی ہے بھائیوں جیسے دوست راجہ رفعت مختار صاحب کو آئی جی سندھ تعینات کردیا گیا ہے۔راجہ رفعت مختار سے مجھے پہلی ملاقات بھی یاد ہے۔ تین گھنٹوں میں مجھے ایک لمحے کے لئے بھی محسوس نہیں ہو اتھا کہ میری راجہ رفعت مختار سے پہلی ملاقات ہے۔وقت گزرنے کا احساس بھی نہ ہوا کیونکہ مزح اْن کی شخصیت میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔جس کی وجہ سے محفل کشت زعفران بن جاتی ہے۔راجہ رفعت جہاں بھی رہے میرٹ کو اہمیت دی اور ایک عوام دوست آفیسر ثابت ہوئے میں اْمید کرتا ہوں اپنی سندھ تعیناتی کے بعد وہ اپنے کام سے سندھ پولیس میں مزیدبہتری لانے کی کوشش کریں گے۔ہم اْن کی زندگی میں بے شمار کامیابیوں کے دعا گو ہیں۔