بھارت میں مسلمانوں کی ابتر حالت عالمی اداروں کا اعتراف
انتہا پسندانہ نظریات رکھنے والے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دور اقتدار میں ہندوستان اسلامو فوبیا کا گڑھ بن گیا ہے جہاں مسلمان شدید سماجی تفریق، معاشی ابتری اور سیاسی تنہائی کا شکار ہیں۔ اس کا اعتراف بین الاقوامی اداروں نے بھی کیا ہے۔ کونسل فار فارن ریلیشنز کی رپورٹ کے مطابق 2014 ء میں مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد سے مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی مسلسل گراوٹ کا شکار ہے اور بھارت کی مجموعی آبادی کا 15 فیصد ہونے کے باوجود پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی صرف 5 فیصد ہے جبکہ بھارتی لوک سبھا میں کوئی مسلمان پارلیمنٹرین موجود نہیں۔ دوسری جانب بھارت میں مسلمان والدین کو بیٹے کے ہندو لڑکی کے ساتھ فرار ہونے پر بے دردی سے مار مار کر قتل کر دیا گیا۔ سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارتی فوجیوں نے اگست 2019میں دفعہ 370کی منسوخی کے بعد سے علاقے میں تلاشی کی کارروائیوں اور گھروں پر چھاپوں کا عمل تیز کر دیا ہے۔ وردی اور سول لباس میں ملبوس بھارتی فورسز کی پرتشدد کارروائیوں نے جموں و کشمیر کی پہلے سے موجود سنگین صورتحال کو مزید ابتر کر دیا ہے۔
بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ہونیوالی سماجی تفریق‘ معاشی ابتری اور سیاسی تنہائی کا ادراک بین الاقوامی اداروں کو بخوبی ہے مگر ان کی طرف سے بھارت کیخلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاتی اور نہ اس پر عالمی پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے حوصلے بلند ہو رہے ہیں اور وہ عالمی دبائو کے باوجود اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے۔ وہ صرف مقبوضہ وادی میں ہی کشمیری مسلمانوں پر مظالم ہی نہیں ڈھا رہا‘ بلکہ بھارت کے اندر بھی مودی سرکار اور اسکی پروردہ آر ایس ایس نے مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کیا ہوا ہے۔ بھارت کے ہر ریاستی ادارے میں جنونی ہندوئوں کا ہی قبضہ ہے۔ اسلامو فوبیا کے حوالے سے بھی بھارتی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ جنونی ہندوئوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی عبادت گاہیں بھی محفوظ نہیں اور شعائر اسلامی کے تقدس کی پامالی میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ عالمی اداروں کو بھارت میں مسلمانوں کی ابتری پر صرف تبصرہ ہی نہیں کرنا چاہیے، انسانی حقوق کی پامالی پر اس کیخلاف سخت کارروائی عمل میں لانی چاہیے۔ بصورت دیگر ‘ بھارت کو راہ راست پر لانا ممکن نہیں اور خطے میں امن کی ضمانت بھی نہیں دی جا سکتی ہے۔