• news

بلوچستان کی سیاست کے قومی دھارے میں شمولیت

نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے بلوچستان کے عوام کو بلوچستان میں ترقی کا عمل تیز کرنے،  روزگار فراہم کرنے اور بحالی امن کیلئے موثر اقدامات اٹھانے کا یقین دلایا ہے۔ گزشتہ روز اپنے آبائی علاقے کان ہترزئی‘ قلعہ سیف اللہ میں ایک عوامی اجتماع سے ٹیلی فونک خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ وہ جلد اپنے آبائی علاقے کا دورہ کرکے شہریوں کو درپیش مسائل کا ذاتی طور پر جائزہ لیں گے اور انہیں حل کرنے کی کوشش کرینگے۔ وہ علاقے کی تمام سیاسی قیادت‘ قبائلی عمائدین‘ علماء کرام‘ سول سوسائٹی اور وکلاء کے شکر گزار ہیں جنہوں نے انہیں بطور نگران وزیراعظم نامزدگی پر مبارکباد دی اور اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی پسماندگی دور کرنے کیلئے کام کیا جائیگا۔ دریں اثنائ￿ سینیٹر ارباب عمر کاسی اور بلوچستان اسمبلی کے سابق رکن سلیم کھوسو نے نگران وزیراعظم سے ملاقات کی اور بلوچستان سے متعلق امور پر ان سے تبادلہ خیال کیا۔ اس موقع پر وزیراعظم نے اتوار کے روز شمالی وزیرستان میں ہونیوالے دہشت گردانہ حملے کی شدید مذمت کی اور انسانی جانوں کے ضیاع پر دکھ کا اظہار کیا۔ 
وفاق پاکستان کی چار اکائیوں میں بلوچستان کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ یہ رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے اور پھر قیام پاکستان کے بعد والیء قلات نے رضاکارانہ طور پر اپنی ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کرکے پاکستان کیلئے اس علاقے کی اہمیت دوچند کی۔ بے شک بلوچستان کا وسیع و عریض علاقہ قدرتی وسائل و ذخائر سے بھی مالامال ہے جہاں سے نکلنے والی سوئی ناردرن اور سوئی سدرن گیس سے اس وقت بھی پورا ملک فیض یاب ہو رہا ہے۔ اسی طرح قیمتی دھاتوں کے خزانے بھی بلوچستان کی دھرتی میں چھپے ہوئے ہیں جنہیں مصرف میں لانے کیلئے پیپلزپارٹی کے دور میں ریکوڈک معاہدہ ایک غیرملکی فرم کے ساتھ کیا گیا تھا تاہم اس وقت کے بلوچ چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری کے ایک فیصلے کے باعث وہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ قیمتی دھاتیں آج بھی بہتر مصرف کے ساتھ ملک کی ترقی و خوشحالی کی ضمانت بن سکتی ہیں۔ بلوچستان سے ملحق ایران کے پاس تیل کے بے پناہ ذخائر ہیں اور اس ناطے سے بلوچستان کی سرزمین کے اندر بھی یقینی طور پر تیل کے ذخائر موجود ہیں جو کسی جامع اور ٹھوس منصوبہ بندی کے تحت دریافت کئے جا سکتے ہیں۔ اس کیلئے مختلف ادوار میں کوششیں بروئے کار لائی بھی جاچکی ہیں تاہم بلوچستان میں زیرزمین تیل کی دریافت کی کوششیں اب تک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکیں۔ 
اس وقت بلوچستان کی خاص اہمیت گوادر پورٹ سے منسلک پاکستان چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے ناطے سے قائم ہوئی ہے جو چین اور پاکستان ہی نہیں‘ اس پورے خطے کی اقتصادی ترقی و استحکام کی ضمانت بن چکا ہے جبکہ سی پیک کے ساتھ عالمی برادری کے مفادات وابستہ ہونے سے یہ علاقائی امن و سلامتی کی بھی ضمانت بن جائیگا۔ اسی ناطے سے پاکستان کی سلامتی و استحکام کیخلاف بدنظریں گاڑے بیٹھے اسکے ازلی دشمن بھارت نے بلوچستان کو پاکستان کیخلاف اپنی گھنا?نی سازشیں پروان چڑھانے کا مرکز بنایا ہوا ہے۔ 
یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ملک کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کرنے والے اس صوبے کے عوام ہمیشہ محرومیوں کا شکار رہے ہیں جنہیں بلوچستان کے مختلف سرداروں کی جانب سے اپنے مفادات اور مخصوص سیاسی مقاصد کے تحت استعمال کیا جاتا رہا اور بلوچستان کی محرومیوں کارونا رو کر ہر دور حکومت میں مفادات سمیٹے جاتے رہے۔ اور پھر بھارت نے بھی پاکستان کے اسی کمزور پہلو کو بھانپ کر بلوچ نوجوانوں میں پاکستان سے منافرت کے جذبات ابھارنے شروع کردیئے۔ نتیجتاً بلوچستان میں محرومیوں کے پراپیگنڈے کے ساتھ علیحدگی پسندی کی تحریکیں ابھرنا شروع ہو گئیں۔ اس سوچ کو بالخصوص بلوچ نوجوانوں میں جنرل مشرف کے دور میں ایک اپریشن کے دوران سابق گورنر اور وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اکبر بگتی کی شہادت کے سانحہ کے باعث زیادہ تقویت حاصل ہوئی اور بی ایل اے‘ اور بی ایل ایف جیسی علیحدگی پسند تنظیموں کی قیادت ناراض بلوچوں کے ہاتھ آگئی چنانچہ موقع غنیمت جانتے ہوئے بھارت نے اپنی ایجنسی ’’را‘‘ کے ذریعے ان علیحدگی پسند عناصر کی باقاعدہ سرپرستی شروع کر دی اور بھارتی ایماء  پر ہی ان علیحدگی پسندوں کی رسائی امریکی کانگرس تک بھی ہوئی جہاں انکے حق میں ایک قرارداد بھی منظور ہو گئی جبکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے تو یہ اعلان بھی کر دیا کہ بھارت بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کو انکی آزادی کیلئے ویسی ہی کمک پہنچائے گا جیسی 1971ء  میں مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کے ذریعے کمک پہنچائی گئی تھی۔ مودی سرکار نے اپنے اس مذموم منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ہی کلبھوشن یادیو کی سرپرستی میں بلوچستان میں پاکستان کیخلاف جاسوسی اور دہشت گردی کا نیٹ ورک قائم کیا جس کا بھانڈا خود اسی کلبھوشن نے اپنی گرفتاری کے بعد پھوڑا۔
یہ امر واقع ہے کہ اسی بھارتی نیٹ ورک کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی پھیلائی گئی اور فرقہ واریت کی آڑ میں بھی بالخصوص بلوچستان میں انسانی خون کی ندیاں بہائی گئیں۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ہماری وفاقی حکومتوں بالخصوص ماورائے آئین اقتدار کے ادوار میں بلوچستان کی پسماندگی دور کرنے اور بلوچوں کی محرومیوں کے ازالہ کیلئے کبھی کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا۔ نتیجتاً ملک کے بدخواہوں کو بلوچستان کی پسماندگی پر اپنی مفاداتی سیاست کا رنگ جمانے کا موقع ملا جس میں بلوچستان کے پنجابی آباد کاروں کو ٹارگٹ کرکے ان پر حملے کرنے کا سلسلہ شروع ہوا  اور اسی فضا میں بلوچستان میں پاکستان اور پنجاب کیخلاف منافرت کے بیج بوئے گئے۔ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے آغاز حقوق بلوچستان کے نعرے کے ساتھ بلوچستان کیلئے مختلف پیکیجز کا اعلان کیا مگر یہ دعوے محض نعرے ہی ثابت ہوئے۔ بعدازاں مسلم لیگ (ن) کے دور اقتدار میں وزیراعظم نوازشریف نے بھی بلوچستان کی ترقی کا عزم باندھا مگر انکی اپنی وزارت عظمیٰ بلوچستان کی مفاداتی سیاست کی زد میں آگئی جبکہ پی ٹی آئی کے دور میں تو بلوچستان کو مسلسل نظرانداز کیا جاتا رہا اور وہاں پاکستان چین اقتصادی راہداری کے جاری منصوبے میں بھی رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوششیں کی جاتی رہیں چنانچہ بلوچ علیحدگی پسندوں کو سیاست کے قومی دھارے میں لانے کی کوئی کوشش اب تک کارگر نہیں ہو پائی۔ 
ہمارا آج کا دور بلوچستان کی محرومیوں کے ازالے کیلئے بلاشبہ مثالی دور ہے اور آج بلوچستان عملاً سیاست کے قومی دھارے میں نہ صرف شامل ہو چکا ہے بلکہ قومی سیاست میں اہم کردار بھی ادا کررہا ہے۔ اس وقت نگران وزیراعظم اور چیئرمین سینٹ کے منصب پر بلوچ قوم کی نامور شخصیات فائز ہیں جبکہ آئندہ ماہ ستمبر میں چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی ریٹائرمنٹ کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان کے منصب جلیلہ پر بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی شکل میں بلوچستان کو موثر نمائندگی حاصل ہو جائیگی۔ آئندہ ماہ صدر ڈاکٹر عارف علوی کے منصب کی میعاد بھی مکمل ہو رہی ہے۔ اگرچہ وہ آئین کے تحت نئے صدر مملکت کے انتخاب تک اس منصب فائز رہ سکتے ہیں تاہم اس وقت انکے بعض اقدامات کے حوالے سے جن تحفظات کا اظہار حکومتی سطح پر سامنے آرہا ہے۔ اسکے تناظر میں ان کا صدر مملکت کے منصب پر برقرار رہنا مشکل نظر آرہا ہے۔ انکے سبکدوش ہونے کی صورت میں صدر مملکت کا منصب بھی بلوچستان کے حصے میں آجائیگا کیونکہ بلحاظ عہدہ چیئرمین سینٹ ہی نئے صدر کے انتخاب تک صدر مملکت کی ذمہ داریاں نبھائیں گے جو بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ 
اگر اس انتہائی سازگار فضا میں بھی بلوچستان کی محرومیوں کا ازالہ نہیں ہوتا تو اس کا الزام کسی اور پر نہیں‘ خود بلوچ قیادتوں کے سر جائیگا۔ اسی تناظر میں نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کے گزشتہ روز کے اعلانات بلوچستان کی ترقی کیلئے خاصے امید افزاء نظر آتے ہیں۔ انہیں بالخصوص بلوچ نوجوانوں میں وفاق پاکستان کے حوالے سے پیدا ہونیوالے تحفظات دور کرنے میں بھی معاون بننا چاہیے۔

ای پیپر-دی نیشن