جڑانوالہ واقعہ بیمار ذہنیت اور پر تشدد رویوں کا نتیجہ
چوہدری شاہد اجمل
chohdary2005@gmail.com
سانحہ جڑانوالہ کی معاشرے کے ہر طبقے کی طرف سے مذمت کی جارہی ہے ،تمام سیاسی و مذہبی رہنمائوں نے نہ صرف اس واقعے کی مذمت کی ہے بلکہ جڑانوالہ کا دورہ کر کے مسیحی بھائیوں سے اظہار یکجہتی کیا ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ کسی ایک گروہ کی سوچ پورے پاکستان کی سوچ نہیں ہے مذہبی قیادت کی جانب سے اس اقدام کو غیر اسلامی قراردیا گیا ہے اور اس میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا گیا ہے جڑانوالہ میں توہین مذہب کے الزامات کے بعد مشتعل ہجوم کی جانب سے ایک درجن سے زائد گھروں اور عبادت گاہوں کو نذرِ آتش کرنے کے واقعے کے بعدپنجاب کی نگران کابینہ نے ایک ٹوٹے ہوئے گرجا گھر کے قریب پہلی سنڈے سروس(اتوار کی عبادت)میں مسیحی برادری کے ساتھ شرکت کی جبکہ سپریم کورٹ کے نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے اپنی اہلیہ کے ہمراہ جڑانوالہ کا دورہ کیا نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے بھی جڑانوالہ کا دورہ کیا نگران وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی اور ان کی ٹیم بس کے ذریعے عیسیٰ نگری پہنچی اور مسیحی برادری کے ساتھ اے ای سی گرجا گھر میں اتوار کی عبادت میں شرکت کی۔اس موقع پر وزیراعلی نے دیگر گرجا گھروں کی جلد از جلد بحالی کا اعلان کیا، انہیں بتایا گیا کہ اے سی ای چرچ کی تزئین و آرائش کی گئی تھی، یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ 94 خاندانوں کو آئندہ 48 گھنٹوں کے اندر فی خاندان 20 لاکھ روپے معاوضہ دیا جائے گا، جس سے انہیں تباہ ہونے والے اپنے گھروں کی تعمیر نو میں مدد ملے گی۔نگراں وزیر اعلی کا کہنا تھا کہ پاکستان ہر پاکستانی کا ہے چاہے وہ مسلمان ہو، عیسائی ہو، سکھ ہو یا ہندو، سب ایک ہیں، میں مظلوموں کے ساتھ ہوں اور ہر ظالم کو قانون کے تحت سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔وزیراعلی نے ریلیف کیمپ کا بھی دورہ کیا جہاں انہوں نے مسیحی خاندانوں کو یقین دلایا کہ ان کے نقصانات کا ازالہ کیا جائے گا اور حکام کو تمام متاثرہ خاندانوں کی رجسٹریشن کرنے کی ہدایت کی۔ نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے جڑانوالہ کا دورہ کیاجہاں انہوں نے مسیحی برادری سے اظہار یکجہتی کیا انہوں نے کہا کہ سانحہ جڑانوالہ پر بہت دکھی ہیں، یہ واقعہ معاشرے میں موجود ایک مرض کی نشاندہی کرتا ہے۔ اقلیتوں کے جان و مال پر اگر کوئی بھی شخص ظلم کرتا ہوا پایا گیا تو اقلیتی برادری ریاستی قوانین اور ریاست کو اپنے ساتھ پائیں گے۔انہوں نے کہا کہ ملک میں کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں مسیحی برادری کا کنٹری بیوشن نہ ہو، قرآن شریف میں اللہ تعالی نے حضرت عیسیٰ کی شان بیان کی ہے، مریم ؑ کی شان بیان کی ہے، دو طبقہ جو انہیں تسلیم کرتے ہیں کیا وہ آپس میں ایسے الجھیں گے؟ ہرگز نہیں، انتہا پسندی کا کسی مذہب، فرقے یا علاقے سے کوئی تعلق نہیں، اقلیتوں کے تحفظ کی ذمہ داری ہم سب پر ہے۔انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ اقلیتی برادری کا تحفظ کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے، اقلیتوں کے تحفظ کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔جڑانوالہ واقعہ ایک بیماری کی نشاندہی کر رہا ہے، وہ بیماری پرتشدد رویوں کی ہے۔انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ انتہا پسندی کا کسی مذہب، زبان یا علاقے سے کوئی تعلق نہیں، جڑانوالہ واقعے کا پتا چل تو بہت دکھ ہوا، آج آپ کے سامنے دل کی باتیں کرنے حاضر ہوا ہوں۔ شہری کا تحفظ یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے، کوئی بھی معاشرہ عدل اور انصاف کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا، جب سب کو یکساں انصاف ملتا ہے تو مملکت بھی قائم رہتی ہے، مملکت کے دشمنوں کا پہلا وار انصاف کے سسٹم پر ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان بنانے میں مسیحی برادری کا اہم کردار ہے، "یہ دشمن کوئی اور اس کا ہدف کوئی اور ہے"، دشمن کان کھول کر سن لے ہم ان تمام چیزوں کو بخوبی سمجھتے ہیں، ہم اپنے لوگوں کا تحفظ اور ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کریں گے۔انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ اقلیتی برادری کو یورپ، امریکا میں بھی ٹارگٹ کیا جا رہا ہے، بطور امتی ہم مسیحی بھائیوں کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں، ایسا کرنے والے انسانیت کے دشمن ہیں، ریاست کو مظلوم کے ساتھ پائیں گے، ہم میجورٹی میں ہیں لیکن میجورٹی ازم پر یقین نہیں رکھتے، آپ جھنڈے میں محض سفید رنگ نہیں برابر کے پاکستانی ہیں۔انہوں نے کہا کہ یقین دلاتا ہوں ہمارا رویہ الفاظ سے زیادہ عمل سے نظر آئے گا، ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا یقین دلایا، ریاست اور ریاست کے قوانین مظلوم کے ساتھ ہیں۔دریں اثنا نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ جڑانوالہ پہنچ کر گرجا گھروں کی ازسر نو تعمیر کی پیش رفت کا جائزہ لیا۔
نگران وزیر اطلاعات و نشریات مرتضی سولنگی کا کہنا ہے کہ جڑانوالہ واقعہ پر نگران وزیراعظم نے واضح کیا کہ اسلام کے نام پر کسی دوسرے مذہب کی تضحیک نہیں ہونے دیں گے، ریاست کی طاقت مظلوموں کے ساتھ کھڑی ہے، ہم اکثریت ہیں لیکن اکثریتی غلبے کا طرز اختیار نہیں کریں گے۔ اسلام کے نام پر کسی دوسرے مذہب کی تضحیک نہیں ہونے دیں گے، ریاست کی طاقت مظلوموں کے ساتھ کھڑی ہے۔
سپریم کورٹ کے نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی اہلیہ کے ہمراہ جڑانوالہ کا دورہ کیا اور توہین مذہب کی آڑ میں ہونے والے فسادات کے حوالے سے مقامی مسیحی برادری سے صورت حال دریافت کی۔متاثرین سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی گرجا گھر پر حملہ کرتا ہے تو مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ حملہ آوروں کو پکڑیں۔جسٹس قاضی فائز عیسی نے یہ بتاتے ہوئے کہ وہ اپنے پیشے کی وجہ سے صحافیوں کے ساتھ بات چیت نہیں کرتے، مقامی لوگوں میں سے ایک کو بتایا کہ انہوں نے ان کے ساتھ یکجہتی کاپیغام جاری کیا تھا۔انہوں نے مزید بتایا کہ وہ ان کے لیے متعدد خوراک کے ڈبے لائے ہیں، جو انہوں نے تسلیم کیا کہ یہ سمندر میں ایک قطرے کے مترادف ہیں۔سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج نے بتایا کہ ہم چاہتے ہیں کہ دوسرے بھی ایسا ہی کریں، مزید کہا کہ سب سے بڑی ذمہ داری کس پر ہے؟ مسلمان پر ہے، انہیں آپ کی مدد کرنی چاہیے۔انہوں نے دریافت کیا کہ سب کچھ ریاست پر کیوں چھوڑنا چاہیے؟ مشاہدے میں یہ بات آتی ہے کہ ریاستی مشینری کی ٹینڈر وغیرہ جاری کرنے کی رفتار بہت سست ہوتی ہے، اس کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔انہوں نے مسیحی رہنما سے کہا کہ مالی حیثیت کے مطابق سب سے زیادہ امداد کی ضرورت کس کواس بات کا خیال رکھا جائے اور اسی حساب سے اشیا تقسیم کی جائیں۔بعدازاں، انہوں نے شہریوں کے ساتھ دوسرے علاقوں میں مدد کی ضرورت کے حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ انہیں وہاں لے جایا جائے۔جڑانوالہ کے دورے کے بعد جسٹس قاضی فائزعیسی نے اپنے بیان میں کہا کہ جڑانوالہ میں ایک مسیحی بستی عیسیٰ نگر میں گمراہوں کے ا یک بے ہنگم ہجوم نے متعدد گرجاگھر اور مسیحی آبادی کے مکانات جلائے اور برباد کیے، یہ جان کر مجھے ایک پاکستانی اور ایک انسان کی حیثیت سے نہایت گہرا دلی صدمہ پہنچا اور شدید دکھ ہوا۔ مسلمان ہونے کے ناطے قرآن شریف پر عمل کرنا ہر مسلمان کا اولین فریضہ ہے۔ گرجا گھروں پر حملہ کرنے والوں نے قرآن پاک کے احکامات کی خلاف ورزی کی، اسلامی شریعت میں اس خلاف ورزی کا کسی بدلے یا انتقام کیلئے جوازمہیا نہیں ہوتا ۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ قومی پرچم میں سفید رنگ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بناتا ہے، آئین پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی فراہم کی گئی ہے، کسی کے مذہبی جذبات مجروح کرنے کی سزا 10 سال قید اور جرمانہ ہے۔ متاثرین کو پہنچنے والے نقصان کی ہر ممکن تلافی کی جائے۔ تعزیرات پاکستان کی دفعات 295 اور 295۔اے کے تحت مذہبی مقامات اور علامات کو نقصان پہنچانا جرم ہے اور کسی کے مذہبی جذبات مجروح کرنے پر 10 سال تک قید اور جرمانے کی سزائیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہر مسلمان کا یہ دینی فریضہ ہے کہ وہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کی جان، مال، جائیداد، عزت اور عبادت گاہوں کی حفاظت کریں اور ان پر حملہ کرنے والوں کو روکیں اور ان کو پہنچنے والے نقصان کی ہر ممکن تلافی کریں۔
جڑانوالہ میں پولیس نے ایک روز قبل مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے گھروں اور چرچ کی عمارت کو نذر آتش کرنے کے الزام میں 600 سے زائد افراد کے خلاف دہشت گردی کے 2 مقدمات درج کیے ہیں۔ایف آئی آرز میں سے ایک میں کہا گیا ہے کہ لوگوں کے ایک گروپ کی قیادت میں500سے 600 افراد کے ہجوم نے مسیحی برادری پر حملہ کیا، لوگوں کے گھروں میں داخل ہونے کے بعد توڑ پھوڑ کی اور مسیحی برادری کے گھروں اور چرچ کی عمارت کو نذر آتش کیا۔ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی 1997 ایکٹ کی دفعہ سمیت پاکستان پینل کوڈ کی مختلف دفعات شامل کی گئی ہیں۔ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے کا کہناہے کہ قانون اور آئین کا حامل ملک ہونے کے ناطے پاکستان ایسی عدم برداشت اور پرتشدد کارروائیوں کو قبول نہیں کر سکتا۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے گزشتہ روز فیصل آباد میں پیش آنے والے اس قابل مذمت واقعے کی شدید مذمت کی ہے ۔انہوں نے کہا کہ مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد ریاست کے مساوی شہری ہیں،بلا شبہ اس واقعہ سے مسیحی برادری کے جذبات کو ٹھیس پہنچی۔ ایک کثیر الثقافتی اور کثیر المذاہب ملک کے طور پر، پاکستان ان اقلیتوںکو آئینی طور پر حقوق اور آزادیوں کے تحفظ اور فروغ اور سماجی ہم آہنگی، رواداری اور باہمی احترام کیلئے ضمانت فراہم کرتا ہے۔