پاکستان بچاو منشور
برصغیر کے مسلمانوں نے 1947ء میں جغرافیائی آزادی حاصل کی تھی- آزادی کے تقاضوں کے مطابق آزاد وطن کو قومی منشور ( عمرانی معاہدے)کی ضرورت تھی- آزادی کے بعد جن طبقات نے اقتدار سنبھالا ان میں اکثریت انگریز نواز تھی- لیاقت علی خان انگریزوں کے کلونیل نظام کے بجائے قائد اعظم اور علامہ اقبال کے تصورات کے مطابق پاکستانی نظام تشکیل دینا چاہتے تھے- ان کو منصوبہ بندی کرکے شہید کردیا گیا- پاکستان میں انگریزوں کا کلونیل نظام جاری رکھا گیا جو 76 سال کی مسلسل ناکامیوں کے بعد آج بھی چلایا جا رہا ہے- یہ نظام استحصالی ظالمانہ اور سنگدلانہ ہے جو سرمایہ داروں جاگیر داروں اور سامراجی ملکوں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے- 1973 کا آئین متفقہ تھا - اس آئین کے نفاذ کے بعد انگریزوں کے نظام کی تبدیلی کے امکانات پیدا ہوئے تھے- ذوالفقار علی بھٹو آئین کے مطابق پاکستان کے ریاستی نظام کی تشکیل نو کر رہے تھے- سٹیٹس کو کے نظام کو جاری رکھنے کے لیے ذوالفقار علی بھٹو کو شہید کر دیا گیا- جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کا آئین تو عوام کی آرزووں کے مطابق ہے مگر پولیس، عدلیہ، بیوروکریسی اور سیاسی و معاشی نظام کلونیل ہیں-یہ وہ بنیادی قومی تضاد ہے جس نے پاکستان کو جمود کا شکار کر رکھا ہے- کلونیل نظاموں کی وجہ سے ایک جانب اجارہ داریاں اور دوسری جانب محرومیاں پیدا ہو رہی ہیں- پاکستان کو بربادی سے بچانے کے لیے لازم ہے کہ قومی منشور تشکیل دیا جائے جو پاکستان کو مضبوط مستحکم اور خوشحال بنا سکے- پاکستان کے متبادل نظام کے لیے پاکستان جاگو تحریک سمیت کئی تنظیموں اور دانشوروں نے سنجیدہ کاوشیں کی ہیں- اس سلسلے میں فرزند پاکستان محترم نسیم احمد باجوہ ایڈووکیٹ کی کاوشیں قابل تحسین ہیں- وہ وطن کی محبت سے سرشار ہو کر لندن سے پاکستان آتے رہتے ہیں اور قومی مجلس مشاورت کا اجلاس بلا کر قومی منشور کے سلسلے میں سنجیدہ غور وفکر کرتے ہیں- قومی مجلس مشاورت نے پاکستان بچاو منشور مرتب کیا ہے جس کے اہم نکات اس کالم میں شامل کیے جا رہے ہیں- انگریزوں کے کلونیل نظام کی وجہ سے پاکستان کی آزادی اور سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہو چکے ہیں- خدا نخواستہ پاکستان اندر سے ٹوٹ سکتا ہے- قومی منشور ہی پاکستان کی بقا کو یقینی بنا سکتا ہے-
انگریز کے بنائے ہوئے چار مصنوعی صوبے ختم کرکے ہر انتظامی ڈویڑن کو صوبے کا درجہ دیا جائے - ہر صوبے کا گورنر عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب کیا جائے-صوبوں میں صوبائی اسمبلیوں کی بجائے گورنر کی مشاورتی کونسل ہو جس میں متعلقہ ڈویڑن کے منتخب ضلعی ناظم شامل ہوں- ہر ضلع میں بااختیار لوکل گورنمنٹ منتخب کی جائے جس کو مالی وسائل منتقل کیے جائیں-پارلیمانی نظام مسلسل طور پر ناکام ہو رہا ہے اس کی بجائے صدارتی نظام نافذ کیا جائے- اچھے اور معیاری نظام حکومت کی بنیاد ان ستونوں پر کھڑی کی جائے - آئین اور قانون کی حکمرانی فوری اور سستا انصاف ( سول مقدمات کا فیصلہ 3 ماہ میں اور فوجداری مقدمات کا فیصلہ 6 ماہ میں کیا جائے) تعلیم و تربیت اور ہنر مندی پر زور دیا جائے اور ہر شہری کو ترقی کرنے کے مساوی مواقع فراہم کیے جائیں- پولیس میں سیاسی مداخلت ختم کرکے اسے عوام دوست بنایا جائے-شفاف اور یکساں احتساب کا نظام تشکیل دیا جائے - انتخابات متناسب نمائندگی کے اصول پر کرائے جائیں اور زندگی کے مختلف شعبوں میں کام کرنیوالے افراد کا کوٹہ مقرر کیا جائے اور عوامی نمائندوں کی اہلیت مقرر کی جائیتاکہ پارلیمنٹ سرمایہ دار طبقے کی بجائے تمام طبقات کی نمائندہ بن سکے- غریب عوام پر ٹیکس کا بوجھ ڈالنے کی بجائے ڈائریکٹ ٹیکس نیٹ کو وسیع کیا جائے- ایسی اشیاء کی درآمدات پر پابندی لگائی جائے جو عیش و عشرت کے زمرے میں آتی ہیں- نوجوانوں کو ہنر مند بنایا جائے تاکہ وہ گروتھ اور برآمدات میں اضافہ کر سکیں- بیوروکریسی کو عوام دوست بنانے کے لیے پروٹوکول اور ناجائز مراعات ختم کی جائیں- نوجوانوں کو سول ڈیفنس کی تربیت دی جائے تاکہ دفاعی بجٹ کا بوجھ کم کیا جاسکے - فرقہ واریت پر پابندی لگائی جائے مذہبی رواداری کو فروغ دیا جائے۔ سادگی اور کفایت شعاری کا کلچر اپنایا جائے اور شہریوں میں نیشنلزم کا جذبہ پیدا کیا جائے- بے روزگار نوجوانوں کو روزگار یا بے روزگاری الاونس دیا جائے - دیہاتی اور شہری جائیداد کی حد مقرر کی جائے - زرعی اراضی بے زمین کسانوں میں آسان قسطوں پر تقسیم کی جائے- ہر بے گھر خاندان کو 3 سے 5 مرلے کا گھر آسان اقساط پر دیا جائے-غیر ملکی بینکوں میں محفوظ پاکستان کی لوٹی ہوئی قومی دولت واپس لائی جائے - سمگلنگ کے خاتمے کی ذمیداری پاک فوج کے سپرد کی جائے - اردو کو سرکاری اور دفتری زبان کے طور پر نافذ کیا جائے -کم از کم تنخواہ 30 ہزار اور زیادہ سے زیادہ 3 لاکھ روپے مقرر کی جائے - پاکستان کی سیاسی سماجی اور فلاحی تنظیموں اور عوام دوست دانشوروں نے پاکستان بچاو منشور سے اتفاق کیا ہے- اس منشور پر عملدرآمد کرکے ہی پاکستان کو قرضوں غربت اور جہالت سے نجات دلائی جا سکتی ہے اور اسے ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے- محترم نسیم احمد باجوہ ایڈووکیٹ ایک موقر روزنامے میں مختلف تاریخی سیاسی سماجی معاشی اور ادبی موضوعات پر کالم لکھتے رہے ہیں- انہوں نے اپنے دانشورانہ کالموں کو یورپ کی ڈائری (عصری تاریخ اور معاشرت کا نیا دریچہ) کے نام سے شائع کرایا ہے-انکے کالم ان کے ضمیر کی آواز ہیں جن کو پاکستان کی سچی تاریخ قرار دیا جا سکتا ہے- ڈاکٹر صفدر محمود مرحوم محترم سلمان عابد اور محترم فیروز گیلانی ایڈووکیٹ نے محترم نسیم احمد باجوہ ایڈووکیٹ کے کالموں کو زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے -مصنف اپنی کتاب کے دیباچے میں لکھتے ہیں- "یورپ کی ڈائری بنیادی طور پر اور منطقی اعتبار سے حالات حاضرہ پر میرا تبصرہ ہے- یہ کالم خود نوشت ہونے کے علاوہ ایک بوڑھے شخص کی نصیحت اور وصیت بھی ہے"-
٭…٭…٭