صدر کی داستان سادہ یا رنگین
دنیا جس کاتصور نہیں کر سکتی وہ پاکستان میں ممکن ہو جاتا ہے۔ کیا تصور کیا جا سکتا ہے کہ کوئی ایوان صدر میں صدر مملکت کی ناک کے نیچے ان سے فراڈ کر جائے۔ جب تک تحقیق نہیں ہو جاتی کہ ایوان صدر میں ہوا کیا ہے اس وقت تک یہ بہت بڑا اور اہم سوال ہر کسی کے ذہن میں اٹکا رہے گا کہ کیا ایوان صدر کی جانب سے صدر کے کہنے کے باوجود متعلقہ بل واپس بھجوائے ہی نہیں گئے یا صدر مملکت نے کوئی ٹیکنیکل گیم ڈالی ہے کیونکہ نہ صرف یہ معاملہ بہت اہم ہے بلکہ اس کی ٹائمنگ بھی بہت ہی اہم ہے۔ نگران حکومت نے ان ہی دو قوانین کے سر پر معاملات کو آگے لے کر چلنا تھا جو کہ مشکوک ہو گئے ہیں کیونکہ اگر صدر مملکت نے دستخط نہیں کیے تو یہ قوانین نہیں بن سکتے اور اگلی قومی اسمبلی کے وجود میں آنے کا انتظار کرنا پڑے گا لہذا یہ معاملہ لٹک گیاہے۔
تازہ ترین اطلاعات ہیں کہ اٹارنی جنرل آف پاکستان نے بتایا ہے کہ صدر مملکت کی جانب سے واپس بجھوائے جانے والے دونوں بل بند لفافے میں وزارت قانون کو موصول ہوگئے ہیں جس پر صدر مملکت کے دستخط نہیں۔ اگر یہ اصلی والے بل ہیں تو یہ اتنے دن کہاں غائب رہے کس نے غائب کیے اور جن دستاویزات کی بنیاد پر دونوں بل قانون بنے ہیں وہ کہاں سے آئے ہیں۔ ان بلوں پر پوری قوم کو ایسی گھمن گھریوں میں ڈال دیا گیا ہے کہ کسی کو سمجھ نہیں آرہی، کیا ہو رہا ہے۔
یہ کیا مذاق ہو رہا ہے۔ ہم پہلے ہی دنیا میں تماشہ بنے ہوئے تھے اب تو دنیا ہمارا مذاق اڑا رہی ہے۔ ہم تو بنانا ریپبلک سے بھی کوئی گئی گذری چیز لگتے ہیں۔ ایوان صدر کو بجھوائے جانے والے بلز روٹین میں قومی اسمبلی اور سینٹ سے پاس ہونے والے قوانین کے مسودے کو صدر مملکت 10 یوم تک غور وخوض کے لیے اپنے پاس رکھ سکتے ہیں وہ اگر 9 ویں دن بھی اعتراض لگا کر واپس بھیج دیں تو حکومت کو دوبارہ اس کو پاس کرواکر صدر کو بجھوانا ہوتے ہیں۔ صدرمملکت پھر دس دن تک ان کو اپنے پاس رکھ سکتے ہیں لیکن دوبارہ اگر وہ دس دن کے بعد دستخط نہ بھی کریں تو وہ ازخود قانون بن جاتے ہیں۔ لیکن یہ آرمی ایکٹ اور سیکرٹ ایکٹ کے معاملہ میں کچھ عجب ہوا ہے کہ ان قوانین کو دونوں ایوانوں سے پاس کروا کر صدر مملکت کو بجھوادیا گیا اور ابھی صدر مملکت کے دستخط نہیں ہوئے تھے کہ قومی اسمبلی تحلیل کر دی گئی۔ مدت پوری کرتی ہوئی اسمبلی یا تحلیل ہوتی ہوئی اسمبلی اگر آخری لمحوں میں قانون بنا دے اور صدر کے دستخط نہ ہوئے ہوں اور اسمبلی اپنی مدت پوری کر جائے یا تحلیل ہو جائے تو ان قوانین کا سٹیٹس کیا ہو گا۔
یہ آئینی ابہام موجود ہے۔ اس پر اندازے سے تشریح کی جا سکتی ہے لیکن آئین میں واضح طور پر ہدایات موجود نہی۔ اب صدر مملکت کا حلفیہ طور پر یہ کہنا کہ میں نے ان مسودوں پر دستخط نہیں کیے، ایک نئے آئینی بحران کو دعوت دے رہا ہے۔ پوری پی ڈی ایم صدر مملکت کے خلاف لنگوٹ کس کر میدان میں اتر آئی ہے اور وہ لوگ بھی تنقید کر رہے ہیں جنھوں نے ان قوانین کے خلاف تقریریں بھی کیں اور ان قوانین کے حق میں ووٹ بھی نہیں دیئیتھے۔ ایک اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اگر ایوان صدر کے ترجمان نے صدر مملکت کے بل واپس بھجوانے کی خبر ریلیز کی ہوتی تو صدرمملکت کو حلفیہ طور پر یقین دہانی نہ کروانی پڑتی۔ وہ بہت بڑا ثبوت ہوتا لیکن اس بارے میں بھی ایوان صدر کا میڈیا مکمل طور پر خاموش ہے۔ کیا یہ کسی سازشی تھیوری کا حصہ تھا کہ ایوان صدر کے میڈیا نے بل بغیر دستخط کیے واپس بجھوانے جیسی اہم خبر ریلیز نہیں کی۔ اب دو باتیں ہو سکتی ہیں یا تو ایوان صدر میں صدر مملکت کو اندھیرے میں رکھ کر چیزیں مینج کی گئی ہیں یا پھر جان بوجھ کر وقت گزرنے کا انتظار کیا گیا ہے۔
اب صدر مملکت جو مرضی کہتے رہیں جنھوں نے ان قوانین پر عملدرآمد کروانا ہے وہ اسے کسی صورت ریورس نہیں ہونے دیں گے۔ یہ معاملہ بحث مباحثوں میں الجھا رہے گا البتہ اس میں عدلیہ کا کردار بڑا اہم ہو گا۔ آخر کار یہ معاملہ عدالت میں جانا ہے۔ عدالت اس کو کس طرح دیکھتی ہے۔ اس کو زیر بحث لایا جاتا ہے یا نہیں۔ عدلیہ کی زیر نگرانی کوئی ٹربیونل اس کی انکوائری کرتا ہے یا نہیں۔ اور اس کھیل کے ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے یا نہیں۔
صدرمملکت نے اپنے سیکرٹری کی خدمات وفاقی حکومت کو واپس کر دی ہیں۔ تبدیل ہونے والے سیکرٹری نے بھی صدر مملکت کو خط لکھ دیا ہے۔ بہر حال یہ معاملہ اب یہاں رکنے والا نہیں۔ صدر مملکت کی نئی سیکرٹری نے عہدہ لینے سے انکار کر دیا ہے۔ پرانے سیکرٹری نے کہا ہے کہ مجھ سے زیادتی کی گئی ہے مجھے عہدہ پر بحال کیا جائے۔ بہرحال صدرمملکت کی جانب سے کیا جانے والا بلاسٹ آنے والی تباہی کا عندیہ دے رہا ہے۔ بڑے پیمانے پر کچھ ہونے والا ہے۔ پی ڈی ایم کی یلغار صدر مملکت کو مستعفی ہونے پر مجبور کر رہی ہے۔ صدر مملکت کے اعصاب کا امتحان شروع ہے۔ اندر کی خبریں رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ ستمبر بڑا ستمگر ہے۔ دیکھیں اور انتظار کریں۔