• news

سوشل میڈیا کا جنگل

اس جنگل کاکوئی قانون نہیں، اس میں وحشت کارا ج ہے ۔ عزتیں اچھالی جاتی ہیں۔ نیلامی لگائی جاتی ہیں۔ درندوں اور خونخوار بھیڑیوں کی شکل میں لوگ ایک دوسرے کی بوٹیاں نوچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اخلاق کا دامن تار تار کیا جاتا ہے ۔ اوریہ ساراغلیظ کھیل آزادی اظہار کے نام پر جاری و ساری ہے۔ وہ زمانے لد گئے ،جب اس اصول کی فرماں روائی تھی کہ جہاں پر آپ کی آزادی کی حد ختم ہوتی ہے ، وہاں سے دوسرے کی آزادی کی حد شروع ہوتی ہے ۔ اس زمانے میں آئین ، قانون اور اخلاقیات کی پیروی کی جاتی تھی۔ اپنی اور دوسروں کی عزت کو سانجھی سمجھا جاتا تھا۔ مذہبی رواداری سے کام لیا جاتا تھا مگر علم، سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے تنزلی کے اس دور کا آغاز ہوا جس میں آج ہمارے لیے سانس لینا بھی مشکل ہورہا ہے ۔ اب نہ توکسی قانون کا احترام باقی ، نہ آئینی پابندیوں کا خیال کیا جاتا ہے، نہ مذہب اور اخلاق کی روایات کو اہمیت حاصل ہے ۔
اس اندھیرنگری میں بھی بعض معاشرے اپنی زندگی کا ثبوت فراہم کرتے ہیں ۔ امریکا میں نائن الیون کے بعد ریاستی جبر کا سلسلہ چل نکلا تو اس پر بنیادی حقوق اور شہری آزادیوں کے دعویدار منچلوں نے ادھم مچانے کی کوشش کی اورریاستی اداروں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ اس قدربدتمیزی کا آغاز ہوا اور سوشل میڈیا اس قدر بے لگام اور شتربے مہار ثابت ہوا کہ امریکی صدر باراک اوباماسوشل میڈیا کے پانچ چھے بڑے مالکان کو وہائٹ ہائوس طلب کیا اور انھیں سخت زبان میں حکم دیا۔ اس پر سوشل میڈیا کے مالکان نے بیک زبان کہا کہ وہ کسی سنسر شپ کو نافذ نہیں کرسکتے کیونکہ امریکی آئین انھیں اظہارِ رائے کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ یہ سن کر صدر باراک اوباما بپھرگئے اور کہنے لگے کہ اس وقت ریاست کے وجود کو سخت خطرہ لاحق ہے اور قومی سلامتی و آزادی کی بنیادیں لرز رہی ہیں تو میں آپ کو آزادی اظہار کی آڑ میں کھل کھیلنے کی اجازت نہیں دے سکتا ۔ میں آپ سب کو واپس گھر نہیں جانے دوں گا اور یہیں سے آپ کو ہتھکڑیاں لگاکر جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جائے گا۔ اس قدر سخت احکامات سن کر سوشل میڈیا کمپنیوں کے مالکان بوکھلا گئے۔انھوں نے یہ کہہ کر اپنی جان چھڑائی کہ وہ فی الفور ریاستی حدود اورپابندیوں کو ملحوظ ِ خاطر رکھیں گے۔
دوسرا طریقہ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے کامیابی سے آزمایا ۔ ہوا یوں کہ کسی درندہ صفت شخص نے ایک معصوم بچے کے ساتھ جنسی زیادتی کا ارتکاب کیا ،پھرسفاکانہ اندازمیں قتل کرڈالا ، اس شخص نے اپنے اخلاقی دیوالیہ پن کی پوری وڈیو بنائی اور اسے انٹرنیٹ پر وائرل کردیا جس سے برطانوی معاشرے میں بھونچال سا آگیا۔برطانوی عوام نے احتجاج کا ایسا سلسلہ شروع کیا اور اپنے بچے کچھے خاندانی نظام کے تحفظ کے لیے اس قدر بلند آہنگ آواز سے احتجاج کیا کہ ڈیوڈ کیمرون کو حرکت میں آنا پڑا ۔ اس نے امریکی صدر باراک اوباما کی طرح سوشل میڈیا مالکان کی ایک ہنگامی میٹنگ بلائی اور انھیں حکم دیا کہ وہ معاشرے کے اخلاقی تاروپود کو ڈائنامیٹ کرنے والے مواد سے اپنے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو پاک کریں۔ ان مالکان نے بھی آزادی اظہار کا واویلا مچانے کی کوشش کی تاہم ڈیوڈ کیمرون نے ان کی ایک نہ سنی اور حکم سنایا کہ اگر آپ نے برطانوی معاشرے کی چولیں ہلانے کا سلسلہ جاری رکھا تو میں آپ سب کو پکڑ کر جیل میں ڈال دوں گا۔ ان مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر حکومت پرعزم ہو تو وہ منہ زور سوشل میڈیا کو نکیل ڈال سکتی ہے۔ 
ہمارے ہاں سوشل میڈیا کی درندگی کا آغاز ہوا تو خواتین کی برہنہ تصاویر اوران کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کی سوشل میڈیا پر تشہیر کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ ان درندہ صفت لوگوں نے کبھی یہ نہ سوچا کہ وہ دوسروں کی مائوں ،بہنوں، بیٹیوں کی عزتیں تو اچھالتے ہیں تو جواب میں ان کی اپنی مائوں ، بہنوں، بیٹیوں کی عزتیں اچھالی جائیں تو کیا ہوگا؟ہمارے ہاں ذاتی دشمنیوںکا بدلہ چکانے کے لیے بھی سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم استعمال کیے گئے ۔پچھلے ایک ڈیڑھ برس سے ایک سیاسی پارٹی نے سوشل میڈیا کے ذریعے ففتھ جنریشن وار کا آغاز کردیا۔ قومی سلامتی کے اداروں کو ہدف تنقید بنایا گیا۔ آرمی چیف اور ان کے سینئر ساتھیوں کی بے توقیری کا سلسلہ چل نکلا ۔ کسی کو میرجعفر جیسے غدار سے تشبیہ دی گئی اور کسی کو ڈرٹی ہیری کا نام دے کر جنونی ثابت کرنے کی مہم چل نکلی ۔
 پاکستان کی فوج ساری دنیا کی نظروں میں کھٹکتی ہے ۔ ایٹمی قوت بننے کے بعد اس سازش کو پروان چڑھایا گیا کہ فوجی ڈسپلن کی دھجیاں بکھیردی جائیں۔ 9مئی 2023کو اس مذموم کھیل کا کلائمیکس دیکھنے میں آیا ،جب سوشل میڈیائی زہر اور نفرت سے بھرے چند جذباتی نوجوانوں نے سیاسی رہنمائوں کے بہکاوے میں آکر فوجی تنصیبات کو روند ڈالا، ان لوگوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے حاضر سروس ،سینئرترین فوجی افسروں کو غداری اور بغاوت کاراستہ اختیار کرنے پر آمادہ کردیا۔ ایک منظم سازش کے تحت ذہن سازی کا عمل مکمل کیا گیا۔ منصوبہ سازوں کا مقصد تو یہ تھا کہ وہ پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے رکھ دیں۔ اگرچہ وقتی طور پر اس سازش کو ناکام بنادیا گیا ہے لیکن سوشل میڈیا کا محاذ پوری طرح گرم ہے ۔ پاک فوج پر زہریلے تیر وتفنگ برسائے جارہے ہیں۔ مخالف سیاسی رہنمائوں کی عزت و ناموس کو بھی پارہ پارہ کرکے رکھ دیا گیا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست اور حکومت آہنی ہاتھوں سے ان شرپسندوں کی سازش کا گلا گھونٹ دے ۔امریکی صدر اوباما اور برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی طرح بلوائیوں کے سامنے ایک حصار کھڑا کردیا جائے ۔
٭…٭…٭

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر-دی نیشن