چیف جسٹس سے صاحبِ کتاب ہونے تک
صاحب کتاب ہونا کسی کے لیے بھی بڑے فخر اور اعزاز کی بات ہے۔ یہ اعزاز سابق چیف جسٹس آف پاکستان ارشاد حسن خاں کو بھی حاصل ہے کہ لکھاری نہ ہونے کے باوجود انہوں نے ’’ارشاد نامہ‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھ ڈالی۔ جس پر سیر حاصل تبصرے ہوئے۔ کالم بھی لکھے گئے جو ملک کے مختلف موقر اخبارات میں شائع ہوئے۔ جسٹس صاحب ان کالموں کو مرتب کر کے ایک اور ’’ارشاد نامہ‘‘ منظر عام پر لے آئے ہیں۔ حسب روایت اسے ملک کے سب سے بڑے ناشر فیروز سنز نے شائع کیا ہے۔ کتاب میں اْن تمام دانشوروں کے کالم شامل ہیں جو اپنے علم اور دانش کے حوالے سے اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں ۔
ارشاد حسن خاں کا مختصر تعارف کچھ یوں ہے ’’آپ جج بننے سے قبل سپریم کورٹ کے سینئر ایڈووکیٹ رہے۔ انجمن حمایت اسلام لاء کالج لاہور میں لیکچرار کی حیثیت سے بھی فرائض انجام دئیے۔ لاہور ہائی کورٹ کے جج بنے۔ فیڈرل سیکرٹری قانون و پارلیمانی امور، چیئرمین لاء کمیشن اور ممبر بورڈ آف گورننس، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کی حیثیت سے بھی فرائض انجام دئیے۔ارشاد حسن خاں قائم مقام صدر مملکت، چیف الیکشن کمشنر بھی رہے۔ جبکہ انہیں نیشنل ججز بیجنگ چین کی طرف سے پروفیسر شپ کی اعزازی ڈگری بھی حاصل ہوئی۔سابق چیف جسٹس آف پاکستان ارشاد حسن خاں قائداعظم سے والہانہ عقیدت اور محبت رکھتے ہیں۔ اْن سے عقیدت ہی ارشاد حسن خاں کو وکالت کی طرف لائی۔ وہ ملک کے نامور وکیل، بعد ازاں جوڈیشری کا حصّہ بن گئے اور چیف جسٹس آف پاکستان کے اہم ترین عہدہ تک پہنچے۔
ارشاد حسن خاں نے کتاب کے صفحہ 7پر ’’سن تو سہی‘‘ کے نام سے کچھ یوں تحریر کیا ہے ’’سوانح عمریوں کے باب میں اردو کا دامن بہت دولتمند ہے۔بعض یادداشتیں ایک آدھ ایڈیشن کے بعدزمانے کی گرد میں گم ہو گئیں۔ کچھ ذہنوں سے بھی اتر گئیں۔ اب سرگزشتوں کی تاریخ میں فقط اْن کا نام باقی رہ گیا ہے۔ بعض یادداشتوں کو ایسی پذیرائی ملی کہ انہوں نے قبول عام کی سند پائی۔ ایسی بھی سوانح عمریاں ہیں کہ جنہوں نے تاریخ پر پڑی گرد کو صاف کیا۔ حقائق کا پردہ چاک کیا۔ غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کو دور کیا۔ ایسی سرگزشتوں نے صاحبِ داستان کے دامن پر حاسدین کے لگائے داغ دھبوں کو صاف اور چھینٹوں سے پاک کیا۔ ہر زمانے میں ہوتا آیا ہے کہ خود نوشت کے نام سے حقائق اور تاریخ کو بری طرح مسخ کیا گیا۔ تاہم اگر بعض خود نوشتیں نہ لکھی جاتیں تو تاریخ، عدل و انصاف اور حقیقت سے زیادتی ہوتی۔ عاجز نے بھی اسی جذبے کے تحت ’’ارشاد نامہ‘‘ قلمبندکی کہ تاریخ و واقعات کو ان کے اصل رنگ میں پیش کیا جائے۔
’’ارشاد ارشاد نامہ‘‘ کے دو پہلو انتہائی اہم تھے۔ ایک یہ کہ ایک یتیم بچہ بے ساکھیوں کے بغیر قائداعظم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ڈپٹی اٹارنی جنرل آف پاکستان، جج لاہور ہائی کورٹ، فیڈرل لاء سیکرٹری، جج سپریم کورٹ آف پاکستان، ایکٹنگ چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ، سپریم کورٹ کا چیف جسٹس، قائم مقام صدر مملکت اور چیف الیکشن کمشنر بن گیا۔ دوسرا مرحلہ، ظفر علی شاہ کیس کے حوالے سے تاریخی فیصلہ تھا۔ تبصرہ نگار احباب نے ان دونوں پہلوئوں پر خصوصی توجہ دی۔ ظفر علی شاہ کیس کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو سراہا گیا اور تسلیم کیا گیا کہ اْن حالات میں ملک و قوم اور آئین و جمہوریت کے لیے اس سے بڑھ کر مفید فیصلہ کوئی نہیں ہو سکتا تھا۔
’’سن تو سہی‘‘ کی اشاعت سے مقصد ’’ارشاد نامہ‘‘ کے لیے سلطانی گواہ پیدا کرنا نہیں بلکہ یہ احساس ہے کہ دانشور حضرات نے جس محبت اور خلوص سے تبصرے کیے ، وہ قدروقیمت کے لحاظ سے انتہائی قیمتی تھے۔ چنانچہ دل نہیں مانا کہ اتنی قیمتی آراء اور اہلِ دانش کے بیش قیمت خیالات سے مجلات و جرائد کے صفحات میں گم ہو جائیں کہ اگر ایسا ہوتا تو عدلیہ کی تاریخ اور آئین و جمہوریت سے زیادتی ہوتی۔
زیر تبصرہ کتاب میں جن اہل دانش شخصیات کے ’’ارشاد نامہ‘‘ پر مقامی اخبارات میں چھپے کالم شامل کئے گئے ہیں اْن میں بڑے بڑے نام شامل ہیں۔ ان ناموں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ ناموں کی اس فہرست میں میرے علاوہ جناب مجیب الرحمن شامی، جناب سعید آسی، جناب حامد میر، جناب ارشاد احمد عارف، اسد اللہ غالب اور دیگر شامل ہیں۔ 10جون2021ء کو ’’جہدِ مسلسل کی کہانی‘‘ کے عنوان سے ’’نوائے وقت‘‘ کے لیے لکھا گیا میرا کالم بھی اس کتاب کی زینت بنایا گیا ہے۔جو کچھ یوں ہے ’’ارشاد حسن خاں پاکستان کا انمول اثاثہ ہیں۔ ایک معاون سے چیف جسٹس بننے تک کا سفر انہوں نے بڑی محنت سے طے کیا۔ اْن کی طویل جدوجہد، انتھک کوشش اور سچی لگن کا ہی ثمر تھا کہ وہ جوڈیشری کے ایک بڑے عہدے تک پہنچے، انہوں نے ایسے کئی تاریخی فیصلے دئیے جو آج بھی عدالتی تاریخ کا ناقابلِ فراموش اور انمٹ باب ہیں۔‘‘
سعید آسی کا کالم ’’نظریہ ضرورت کو پہلا ڈنٹ ڈالنے والے‘‘ بھی ماضی کے دریچوں میں جھانکتا ہوا عدالتی تاریخ کا ایک اہم در کھولتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ’’پہلے میرا بھی یہی گمان تھا کہ مسٹر جسٹس ارشاد حسن خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے سید ظفر علی شاہ کیس کا فیصلہ صادر کرتے ہوئے نظریہ ضرورت سے بھی آگے کا کوئی معرکہ مار لیا ہے کہ اس میں تو ماورائے آئین و اقتدار جرنیلی آمر کو بن مانگے آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دے دیا گیا ہے۔ مگر میں نے جسٹس ارشاد حسن خاں کی سوانح عمری ’’ارشاد نامہ‘‘ کے اوراق الٹنا شروع کئے تو میرے ذہن میں اس فیصلے کے حوالے سے موجود سارے تحفظات دور ہوتے چلے گئے اور اس فیصلے کے معجزاتی ثمرات مجھے صاف دکھائی دینے لگے، جس سے یہ نتیجہ اخذ ہوا کہ یہ فیصلہ نظریہ ضرورت سے آگے کا معرکہ ہرگز نہیں بلکہ اس نے تو عدلیہ کے نظریہ ضرورت کو ریورس گیئر لگا دیا ہے۔‘‘
’’ارشاد نامہ‘‘ پر اہلِ دانش کے جو کالم اس کتاب کی زینت بنائے گئے ہیں ، وہ سب کے سب انمول، بے مثل اور ایک بڑے آئینی عہدے پر متمکن رہنے والی شخصیت کے لیے بڑے اونر اور اعزاز کی بات ہے۔ ورنہ یہ عہدہ کئی ادوار میں متنازع رہا ہے۔
٭…٭…٭