معاشی بحران: حل مل گیا
وزیر اعظم کاکڑ صاحب کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ وہ سخت تعلیم یافتہ اور شدّت پسند محب وطن ہستی ہیں۔ ان کی ایک حالیہ تقریر رپورٹ ہوئی ہے جس سے ان دونوں باتوں کی کماحقہ تصدیق ہو جاتی ہے (نوٹ، کماحقہ کا لفظ سمجھ میں نہ آئے تو اس کا متبادل قرارِ واقعی کو سمجھ لیجئے)۔
رپورٹ میں ہے، انہوں نے ملک کو درپیش معاشی بحران کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ملک کو معاشی چیلنجز کا سامنا ہے۔ وزیر اعظم کو فیصلے اربوں کے کرنے ہوتے ہیں جبکہ تنخواہ محض تین لاکھ روپے ہے۔ ہمیں قلیل اور طویل مدّت کے فیصلے کرنے ہوں گے۔ تاجروں کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہوں گے۔ تاجروں کے لیے ہر وقت دستیاب ہوں۔
دیکھا، کتنے دریا ایک ہی کوزے میں بند کر دئیے۔ بہرحال، 3 لاکھ روپے تنخواہ ہونے کا شکوہ قلیل اور طویل مدّتی بنیادوں پر حل کیا جا سکتا ہے۔ سابق پارلیمنٹ نگران حکومت کے اختیارات میں اضافہ کر گئی تھی۔ قلیل مدّتی سکیم کے تحت تنخواہ میں اضافہ اور طویل مدّتی سکیم کے تحت تنخواہ میں مزید اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ قلیل مدّتی سکیم کے تحت ایک کروڑ ماہانہ تنخواہ سے شاید گزارہ ہو جائے!
تاجروں (بڑے والے) کیلئے ہر وقت دستیاب ہوں کا یہ مطلب ہرگز نہ سمجھا جائے کہ دیگر حضرات زحمت نہ کریں اس لئے کہ اشرافیہ میں محض بڑے تاجر ہی نہیں ہوتے، ہر طرح کے سیٹھ اور کثیر القامت افسران بھی آتے ہیں۔ ہائوسنگ سوسائٹیوں والی برادری تو اس میں ’’پرائم‘‘ حیثیت رکھتی ہے۔
یاد آیا، چند روز قبل الیکشن کمشن نے ایک ’’انتباہ‘‘ جاری کیا تھا جو نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر میڈیا میں جگہ نہ پا سکا۔ ایک آدھ اخبار نے اندر کے صفحہ پر خبر چھاپی۔ خبر میں ہے کہ نگران حکومت کے نام لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ ڈپٹی کمشنر حضرات گرین بیلٹ پر ہائوسنگ سوسائٹیز کو این او سی (زمینوں پر قبضے کے بے خوف و خطر پروانے) دے رہی ہے، یہ کام نگران حکومت کا نہیں، یہ این او سی دینا فوراً بند کئے جائیں۔
اس مختصر خبر پر قلیل مدّتی غور کی ضرورت ہے نہ طویل مدّتی۔
_____
نگران کابینہ کے چہرے اور نام جب میڈیا پر آئے تھے تو دیکھ کر ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ معاشی بحران کی اشرافیائی تشریح اور اشرافیائی حل کا وقت آ گیا۔
چنانچہ ڈالر ماشاء اللہ تین سو روپے کا ہو گیا، بجلی کی قیمت میں پہلے سات پھر ساڑھے پانچ روپے ، یعنی کل ساڑے بارہ روپے اضافہ ہو گیا۔ ساڑھے پانچ کا تکلف اس لئے کیا گیا کہ رائونڈ فگر یعنی چھ روپے کا اضافہ کرتے تو چھ اور شامل کرکے تیرہ ہو جاتے اور تیرہ کا ہندسہ منحوس ہوتا ہے اور ایک بڑی روایت کے مطابق تیرہ تاریخ جمعہ کو پڑے تو نحوست اور بھی بڑھ جاتی ہے چنانچہ اس نحوست سے بچا گیا۔ بہرحال، یار زندہ صحت باقی۔ ابھی نگراں حکومت کی مدّت میں غیر معینہ باقی ہے، نہ جانے کتنے ساڑھے بارہ اور آئیں گے۔
جہاں تک عوام کا تعلق ہے، ان کے لیے ہر روز فرائیڈے دی تھرٹینتھ‘‘ ڈے ہے اور تھرٹینتھ کی سڑینتھ، بڑھتی جا رہی ہے۔ نگران دور میں اس اضافے کی رفتار ناقابل یقین حدوں کو چھونے لگی ہے۔ بحران کا حل قریب ہے۔
_____
سیاسی کلچر رنگ بدل رہا ہے، اس میں سماجی تلخی بھی گھل گئی ہے، بجلی کے بل برداشت کی حد توڑ چکے ہیں اور ایسے ایسے کلپ دیکھنے کو مل رہے ہیں جن کا خیال اس وقت تک نہیں تھا۔ لوگ بجلی کے بل جلا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ کنکشن کاٹنے کے لیے کوئی آیا تو اس کا حشر کر دیں گے۔
یعنی سول انارکی جو سول وار کا دیباچہ ہے کہ عمران خان نے ڈیڑھ سال جس کے لیے ان تھک محنت کی لیکن کامیابی نہ ملی۔ خیر ہو شہباز حکومت کے آخری چند اور نگران حکومت کے پہلے پندرھواڑے کی کہ اگرچہ خدا نہ کرے کی دعا ہمراہ ہے، راہ ہموار ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔
کل بنوں میں ایک شخص نے غربت اور محرومی کی ہر حد عبور ہو جانے کے بعد اپنے چاروں بچے مار ڈالے۔ پہلے انہیں نیند آور دوا دی پھر گولیاں مار دیں، پھر اپنی جان بھی لے لی۔ اس سے دو روز پہلے ایک ماں نے خودکشی سے پہلے دو کمسن بچوں کو گلا دبا کر مار ڈالا۔ خبر میں ہے کہ بجلی کا بل بھرنے کے پیسے نہیں تھے۔
حالات خراب ہوں تو دعاکی جاتی ہے، حالات نہایت خراب تو دعا سے کام نہیں چلتا، خودکشی کرنا پڑتی ہے، لازمی ہو جاتی ہے۔
ساری قوم اس لازمی لازمے کی طرف بڑھ رہی ہے۔، مبارک ہو، حکومت پچھلے پانچ برسوں سے کاملاً اشرافیہ کے پاس ہے۔ اشرافیہ کے لیے لمحہ فکریہ تو بنتا ہے، خلق اسی طرح مٹتی رہی تو کاٹنے کے لیے جیبوں کی تعداد کم نہیں پڑ جائے گی؟
_____
خاں صاحب کو ایک ہفتے پہلے ترجمے والا قرآن پاک دیا گیا تھا۔ ڈاکٹر بابر اعوان (پی ایچ ڈی کی اصلی ڈگری والے) نے بتایا ہے کہ اس کا مطالعہ تو خان صاحب کب کا کر چکے،
ماشاء اللہ، مزید بتایا کہ خان صاحب نے مقدمہ ابن خلدون منگوایا تھا، اسے بھی پڑھیں گے۔
پڑھیں گے تو پریشان بھی ہوں گے۔ انہوں نے سوچا ہی نہیں کہ مقدمہ توشہ خانہ ، مقدمہ القادر یونیورسٹی کی طرح ایک مقدمہ ابن خلدون بھی ہو گا، یہ دو مقدمے تو ’’پڑھ‘‘ ہی رہا ہوں، لگے ہاتھوں یہ تیسرا بھی پڑھ لوں۔
مقدمہ ابن خلدوں کی ضروری تفہیم کے لیے کسی سکالر کا ساتھ ہونا ضروری ہے۔ مناسب ہے کہ خاں صاحب عثمان بزدار کو بلوا لیں۔