جانبدار صدر پاکستان، سائفر کیس اور بجلی کے بل!!!!!
کالم شروع تو صدر پاکستان کی جانبداری سے کرنا تھا سوچا کہ اس کے بعد سائفر کیس پر لکھوں لیکن جب سرخی کے آخر میں بجلی کے بلوں کا ذکر ہوا تو ذہن بدل گیا، یعنی حالات بدل گئے جذبات بدل گئے اور لکھنے کے انداز اور ترتیب بھی بدل گئی۔ بس پھر کیا تھا بجلی کے بلوں سے کالم شروع کیا دعا کریں اس دوران کہیں بجلی کا بل نہ آئے ورنہ اس کے بعد کالم کی جگہ لکھا ملے گا "انتظار فرمائیے" جیسا پی ٹی وی کے دور میں ہوتا تھا کہ مواصلاتی سیارے سے رابطہ منقطع ہونے کی وجہ سے نشریات معطل ہیں یہی حال ان دنوں بجلی کے بل کو دیکھ کر ہر دوسرے پاکستانی کا ہوتا ہے کیونکہ بجلی کے بل ایسے آ رہے ہیں کہ انسان کے جسم کا دماغ سے رابطہ فورا منقطع ہو جاتا ہے۔ بجلی کا بل دیکھ کر اچھا بھلا بندہ بہکی بہکی باتیں کرنے لگتا ہے۔ ایسا رویہ اختیار کرتا ہے کہ دیکھنے والے سمجھتے ہیں کہ دماغ چل گیا ہے یا دماغ خراب ہو گیا ہے ویسے زیادہ سنجیدہ نہ ہوں ان دنوں اکثریت کا یہی حال ہے جسے دیکھیں بجلی کا بل اٹھائے پھر رہا ہے۔ ہر شخص بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے پریشان ہے۔ بالخصوص کم آمدنی والے افراد کی پریشانی ناقابل برداشت ہے۔ تین چار سو یونٹس کا بل بھی بیس بیس ہزار تک پہنچ چکا ہے بجلی کی قیمتوں کا تعین کرنے والوں اور اس کی منظوری دینے والوں اور سب سے بڑھ کر یہ معاہدے کرنے والوں کو یہ سوچ کیسے آئے کہ عام آدمی کے لیے اتنے پیسے صرف بجلی کے بل کی مد میں ہر ماہ ادا کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ ایک شخص کل بتا رہا تھا چوہدری صاحب سولہ ہزار بل گذشتہ ماہ ادا کیا ہے اس مرتبہ بل بیس ہزار سے بھی زیادہ ہے۔ پنکھے چلتے ہیں یا روشنی کا کچھ بندوبست ہے۔ بتائیں اگر بیس ہزار بجلی کا بل جمع کروا دوں تو باقی سارا مہینہ کیا کروں گا۔ گاؤں میں رہتا ہوں۔ کوئی آسائش نہیں بلکہ بنیادی ضرورت کی چیزیں ہیں پھر بھی اتنا بل آتا ہے کہ دماغ گھوم جاتا ہے ۔ بل جمع نہ کروائیں تو بجلی سے محروم ہو جائیں گے۔ کیا کریں کوئی راستہ نہیں ہے۔ بچوں کی اپنی ضروریات ہیں، بزرگوں کے اپنے مسائل ہیں خود تو انسان اپنی جان پر جبر کر سکتا ہے لیکن بچوں اور بزرگوں کا کیا کرے۔ انہیں کم از کم اس قیامت خیز گرمی میں پنکھے کی سہولت تو ہونی چاہیے لیکن لگتا ہے آنے والے برسوں میں ہم اس سہولت سے بھی محروم ہو جائیں گے۔
اس میں کچھ شک نہیں کہ بجلی بہت مہنگی ہوئی ہے عام آدمی تو دب کر رہ گیا ہے کاروبار کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ لوگ بدظن ہو رہے ہیں۔ حکومت بجلی مہنگی کر رہی ہے تو پھر لوگوں کی آمدن بھی بڑھائے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں اسی طرح بجلی کے بل پاکستانیوں کے خون کو جلا رہے ہیں ۔ ایک طرف سورج کی تپش جھلسا رہی ہے تو دوسری طرف بجلی کے بلوں نے تن بدن میں آگ لگا رکھی ہے۔ یعنی کسی لمحے سکون نہیں ہے۔ آنے والی سردیوں میں حکمرانوں نے یہی حال سوئی گیس کا بھی کر دینا ہے۔ گیس مہنگی کریں گے پھر لوگ سلنڈروں پر جائیں گے یعنی ایک اور اضافی خرچہ برداشت کرنا پڑے گا۔ کراچی کی ٹمبر مارکیٹ میں کے الیکٹرک کا عملہ نادہندگان کی بجلی کاٹنے کے لیے گیا تو کے الیکٹرک عملے پر تاجروں نے حملہ کر دیا اور دوٹوک جواب دیتے ہوئے کہا کہ کسی صورت بجلی کے بل نہیں دیں گے۔کے الیکٹرک کے مطابق بجلی کی قیمت کے الیکٹرک حکومتِ پاکستان اور نیپرا طے کرتے ہیں۔ یہ خطرناک صورتحال ہے لوگوں کے پاس پیسے نہیں ہوں گے تو وہ آپے سے باہر ہو جائیں گے تو پھر ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔
آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت قائم ہونے والی خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں شاہ محمود قریشی کے جسمانی ریمانڈ میں مزید تین روز کی توسیع کر دی ہے۔اسلام آباد کی خصوصی عدالت کے جج ابو الحسنات نے پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس کی بند کمرے میں سماعت کی جس سلسلے میں ایف آئی اے نے شاہ محمود کو عدالت میں پیش کیا۔ سائفر کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان بھی شامل ہیں۔ ان کا بھی ٹرائل ہونا ہے۔ یہ بہت اہم کیس ہے اور اگر اس میں پی ٹی آئی کی اعلی قیادت کے خلاف جرم ثابت ہوتا ہے تو پھر ان کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ یہ کیس ایسا نہیں کہ پی ٹی آئی اسے آسان سمجھے یا اس سے نکلنا اتنا آسان ہے کیونکہ اس معاملے میں بہت سی چیزیں پہلے ہی پاکستان تحریک انصاف کی قیادت عوام کے سامنے رکھ چکی ہے اور اس حوالے جلسے بھی ہوتے رہے ہیں۔ اس لیے سائفر کیس میں اگر کوئی مجرم ثابت ہوتا ہے اس کے لیے سخت ترین سزا والا پہلو استعمال ہو سکتا ہے۔ پی ٹی آئی کو سنجیدہ ہو کر عدالتی مقدمات کی کارروائی کا حصہ بننا ہو گا اگر وہ آج بھی حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے تو انہیں خطرناک نتائج کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ عدالتوں میں قائم مقدمات جان نہیں چھوڑا کرتے نہ ہی ہر معاملے میں غیر منطقی گفتگو کر کے مشکلات میں اضافہ کرنا چاہیے۔ عمران خان کو ایک متوازن لیگل ٹیم کی ضرورت ہے اگر چے پرستاروں یا ان کے سیاسی مخالفین پر مشتمل ٹیم سے بہتر نتائج کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
دوسری طرف صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے تہیہ کر رکھا ہے کہ انہوں نے ہر وقت اس کام میں ٹانگ اڑانی ہے جس سے ان کا کوئی تعلق نہیں انہوں نے ہر وہ کام کرنا ہے جس سے ملک میں سیاسی عدم استحکام برقرار رہے۔ انہیں غیر جانبدار رہتے ہوئے کام کرنا چاہیے لیکن وہ ہر معاملے میں الجھنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ الیکشن کے معاملہ پر بھی انکی پھرتیاں بے معنی ہیں ان کا کچھ لینا دینا نہیں نہ ان کے کہنے سے کسی نے انتخابات کی طرف جانا ہے نہ صدر کا یہ اختیار ہے کہ وہ الیکشن کے لیے متحرک ہو اور خط و کتابت کرتا رہے۔ چونکہ ڈاکٹر عارف علوی پہلے پی ٹی آئی کے کارکن ہیں اور بعد میں صدر پاکستان ہیں اس لیے ان سے اس سے کم کوئی توقع کی بھی نہیں جا سکتی۔ وہ جیالے اور متوالے کا مکسچر ہیں سو جب تک عہدے پر ہیں ایسے ہی رہیں گے۔ ان کے حالات خراب ہو سکتے ہیں بہتری کی توقع فضول ہے۔
آخر میں احمد فراز کا کلام
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی
یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں
غم دنیا بھی غم یار میں شامل کر لو
نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں
تو خدا ہے نہ مرا عشق فرشتوں جیسا
دونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں
آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر
کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں
اب نہ وہ میں نہ وہ تو ہے نہ وہ ماضی ہے فراز
جیسے دو شخص تمنا کے سرابوں میں ملیں
پچیس اگست احمد فراز کا یوم وفات بھی ہے انہیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین