میرے فوجی جواں جراتوں کے نشاں
ہم اپنے بچپن سے ہی دیکھتے آرہے ہیں کہ مشکل کی ہر گھڑی میں ہماری پاک افواج ہمارے کام آئی ہے۔کوئی ناگہانی آفت آ جائے ، کوئی زلزلے سے تباہ کاری ہو، کہیں سیلاب میں پھنسے لوگوں کی مدد درکار ہو یا کہیں کوئی اچانک بڑا مسئلہ پیش آ جائے۔
ہماری پاک فوج کے جوان ہماری ہر مشکل کی گھڑی میں ہمارے ساتھ ہوتے ہیں۔
چند دن پہلے بٹگرام میں ہونے والے واقعہ نے ہر درد دل رکھنے والے بندے کو پریشان کیا ہوا تھا۔
چئیر لفٹ مین پھنسے لوگ اللہ کی ذات کے بعد انسانوں کی مدد کے طلبگار تھے۔ آخر کار بہت مشکل حالات میں اللہ کی مدد سے پاک آرمی کے نوجوان نے انہیں مشکل سے نکالا۔پورے پاکستان کی سانسیں بحال ہوئیں کیونکہ ہر کوئی پریشان تھا۔
کچھ چیزیں فطری ہوتی ہیں انسان کا ذہین اس کرب سے نکل نہیں پاتا جب تک کہ اس کا سدِباب نہ ہو سکے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم آج بھی کتنی مشکلوں میں ہیں ہمارے کچھ علاقے بنیادی سہولتوں سے بھی کوسوں دور ہیں۔ کہیں صاف پانی کے مسائل ہیں۔
لوگ صاف پانی کی عدم دستیابی کی بنا پہ بیمار پڑ رہے ہیں۔ سندھ میں پانی کے مسائل سب سے بڑھ کے ہیں
حالانکہ یہاں ایک بڑی سیاسی جماعت کی برسوں سے حکمرانی رہی ہے اور اس کا اثرورسوخ بھی کسی حد تک سندہ کے ہر علاقیمیں ہے۔
بٹگرام کا علاقہ اپنی خوب صورتی اور دلکشی کی بنا پہ کسی جنت سے کم نہیں۔
جوان اور محنت کرنے والے لوگ اپنے بل بوتے پر زندگی گزار رہے ہیں ۔
لوگ چئیر لفٹ کا استعمال سیرو سیاحت کے لیے کرتے ہیں اور ادھر لوگوں کو یہ سفر کی سہولت کے طور پہ استعمال کرنی پڑتی ہے۔
عجیب بات ہے آج تک کسی عوامی نمائندے کے پاس کوئی اس کا متبادل حل نہیں ۔
کہ لوگوں کو کچھ سفری سہولیات دے سکیں۔
یہ ہمارے عوامی نمائندے جب ووٹ لینے کی باری آتی ہے تو جس علاقے میں کبھی نہ گئے ہوں ادھر بھی پہنچ جاتے ہیں۔
پھر اس وقت انہیں موسموں کی شدتیں کچھ نہیں کہتیں۔الیکشن ہوتے ہیں یہ لوگ ایسے بھاگتے ہیں جیسے کبھی ان کا اس علاقہ سے کوئی تعلق رہا ہی نہ ہو۔
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا یے ہم اپنے بچپن ہی سے ہر مشکل میں اپنی پاک آرمی کے جوانوں کو سرگرم عمل دیکھتے آرہے ہیں۔ وہ ہر موسم کی سختی سہتے ہیں۔ گرمیوں کے موسم میں اس قدر موٹی وردی پہنے ہر محاذ پہ کھڑے ہوتے کہ جیسے ان پہ کسی موسم کا اثر ہی نہیں۔انہیں ٹریننگ میں سب کچھ برداشت کرنا سکھایا جاتا یے۔
ہر قسم کی سستی ان سے بھاگ جاتی ہے۔
دفاع وطن کے لیے ہر وقت محاذ آرائی کے لیے کھڑے رہنا ایک سپاہی کی اولین ترجیح ہوتی یے۔
میرے وطن کے ہر سپاہی کو سلام ان کی جرتوں کو سلام۔ آج ہم اس روئے زمیں پہ اگر کسی وقعت اور معیار کے ساتھ کھڑے ہیں تو اس میں اللہ کے کرم کے بعد ہماری افواج کا کردار سب سے اہم ہے۔
اقوام عالم میں ہماری افواج کی بہادری اور جرات کے قصے مشہور ہیں۔ آج ہم اگر اپنے ہمسایہ ممالک کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتے ہیں تو یہ صرف اور صرف ہماری افواج کی بدولت ہے۔جس ملک کا دفاع مضبوط ہوتا ہے اس کا باقی قدرے ناقص نظام زندگی بھی اس کی مد میں کور ہو جاتا ہے۔
دوسرے ممالک افواج کی مضبوطی کو ملکی کی مضبوطی کا باعث سمجھتے ہیں۔
میں یہ سمجھتی ہوں اپنی دھرتی کے محافظ کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ ان کے خلاف بات کرنا ایک طرح سے اپنی دھرتی ماں کے خلاف بات کرنا ہے۔ کچھ عرصے سے سوشل میڈیا پہ عجیب وغریب ابہام پھیلایا جا رہا ہے۔ جناح ہاؤس میں ہونے والا واقع بھی یکسر حالات میں کشیدگی کا باعثِ بنا ہے جو ہر لحاظ سے قابل تردید ہے۔
میرا خیال ہے کوئی بھی محب وطن اس کا مرتکب نہیں ہوسکتا۔ وہ اپنے اداروں کے خلاف بات نہیں کر سکتا۔ غلط فہمیاں کبھی کبھی کسی بڑے سانحے کا باعث بنتی ہیں۔ حالات اس قدر بگڑ جاتے ہیں کہ درست موقف بھی غلط لگنے لگتا ہے۔
بہرحال جو بھی ہے ہمیشہ بات کرتے وقت دھیان رہے کہ کبھی بھی کسی ابہام پر مشتمل بیان نہ دیا جائے۔ کبھی اپنے قومی اداروں کے خلاف بات نہ کی جائے۔ جو ادارے مضبوط ہیں پاکستان کی مضبوطی کا باعث ہیں ان کی شان بڑھانے کی بات کی جائے۔ اپنے کسی بیان سے دھرتی ماں کی عزت کم نہ ہو۔
مجھے 2000 کا وہ واقعہ یاد آرہا ہے غالبا یہی سن تھا ملک کے حالات ہم سایہ ملک کے ساتھ بگڑے ہوئے تھے۔ ہم چونکہ ڈیفسن لائن کے آس پاس بسنے والے دیہاتوں سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے، ہمیں کوئی بھی کشیدگی ہو، گاؤں سے اٹھا دیا جاتا ہے۔
ہمارے گاؤں کے پاس سے ایک نالہ گزرتا ہے
گاؤں والوں کو وہ نالہ کراس کر کے اپنے کھیتوں میں جانا پڑتا ہے سو جو جوان ہیں وہ تو تیراکی کرتے ہیں آرام سے گزر جاتے ہیں لیکن سردیوں کے موسم میں ان کے لیے بھی مشکل ہوتی تھی۔
ملک کے حالات کشیدہ ہوئے تو پاک آرمی کے نوجوان جیسا کہ افواج بارڈر پہ لگ چکی تھیں تو ارگرد کے دیہات میں لوگوں کو بریف کرنے پاک آرمی کے نوجوان آتے رہتے تھے۔
انہوں نے دیکھا کہ یہ نالہ کراس کرنا بوڑھوں کی لیے خاص کر مشکل کا باعث ہے تو
فوجی جوانوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اس پر پوری مہارت سے ایک پل بنا لیا۔ لکڑیوں کی مدد سے بنایا گیا وہ پل کسی شہکار سے کم نہیں تھا۔
جس کی سہولت ہر خاص و عام کو میسر تھی۔ ہم صرف شوق سے اس پل کو کراس کرنے جاتے اور بغیر کسی کام کیے واپس آجاتے تھے۔
فوجی جوان ہماری اس بیمعنی آمدورفت پر دور سے مسکرا دیتے۔
اگرچہ یہ ان کی ڈیوٹی میں شامل نہیں تھا لیکن انہوں نے دوسروں کی سہولت کے لیے وہ کام کیا اور دعائیں سمیٹیں۔
ہمارا سب سے مضبوط ادارہ ہماری افواج ہیں۔ ان کی بدولت ہم اقوام عالم میں سرخرو ہیں
دشمن ہمیں میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔
میری پاکستان میں بسنے والے تمام اہلِ وطن سے گزارش ہے اپنی سرحدوں کے محافظوں کی عزت ان کی شان وشوکت کے مطابق کریں۔
وہ جہاں کہیں نظر آئیں انہیں سلام کریں۔
میں اس وقت ان تمام ماوں کو سلام پیش کرتی ہوں جن کے لخت جگر اس پاک دھرتی کے لیے قربان ہوئے۔ان شہداء کی بیواوں کو سلام پیش کرتی ہوں جن کے سہاگ اس وطن پہ قربان ہوئے۔
میری آن میری شان میرا پاکستان
اس کے رکھوالے ہیں میرے سوہنے شیر جوان۔
٭…٭…٭