• news

وینٹیلیٹر پہ لگا معاشرہ اور مطالعۂ سیرت

پے درپے ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں کہ پچھلے واقعہ کو چھوڑ کر موجودہ واقعہ پر کف افسوس ملنے کو دل کرتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی معاشرہ تباہی کے دہانے تک پہنچ چکا ہے بس اخلاقی پامالی کا ایک دھکا لگنے کی دیر ہے ، یہ منہ زور معاشرہ جہالت کے ایسے گڑھے میں گرے گا کہ خدانخواستہ ریکوری کی کوئی صورت نہیں بچے گی اور پھر اس گرداب میں ہر کسی کو نفانفسی کی ایسی فکر دامن گیر ہوگی کہ جو اغیار کو غالب آنے کے لیے خودبخود دعوت کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔ 
گزشتہ جتنی بھی قومیں گزریں وہ انسانی اخلاق و شرافت کو بھلا چکی تھیں۔ پھر رب کائنات نے اپنے پیغمبر بھیجے تاکہ معاشرتی لحاظ سے جان کنی کی کیفیت میں مبتلا لوگوں کو ہدایت ہو۔ ہر ہر قوم کے لیے ہادی بھیجے گئے۔ اس سوشل میڈیا کے دور میں ہماری صورتحال بہت سنگین ہو چکی ہے۔ وہ اس طرح کہ نبی آخرالزمانﷺ نے قیامت تک کے لیے گائیڈ لائنز فراہم کر دی ہیں نیز دین مکمل ہو چکا ہے، لہٰذا بد ترین خصائل کے ساتھ ہم اب کس ہدایت کے منتظر ہیں؟
گالی گلوچ، غصہ، تشدد کا کلچر عوام میں پیوست ہو چکا ہے۔حتیٰ کہ ٹاک شوز کے اندر سنجیدہ موضوعات پر غور وفکر اور بات چیت کی بجائے گالم گلوچ ہوتی ہے اور ٹی وی چینلز پر ایسے ایسے الفاظ استعمال ہوتے ہیں کہ الامان الحفیظ۔
اب یہی کچھ ایوانوں سے گھروں میں منتقل ہونے سے سوسائٹی میں بھی وہی لب ولہجہ فروغ پارہا ہے۔مثال کے طور پر کانسٹیبل شاہد کی وائرل ویڈیو کو ہر کسی نے برا کہنے کے باوجود اسے اپنی اپنی وال پر پوسٹ کیا۔ یہاں سے اندازہ ہوتا ہے کہ عوام کا معیار زندگی کہاں تک گر چکا ہے۔
پہلے پہل لوگ اپنی فیملیز کے ساتھ رات کو ڈنر پر یا بستر پر اسلامی قصے اور حکایات سنایا کرتے تھے جو بچوں کے ذہنوں میں ازبر ہو جاتی تھیں۔ گویا وہ تربیت کے مترادف ہی ہوتا تھا۔ بچے اپنی عملی زندگی میں کسی نہ کسی موڑ پر ان تعلیمات کو ضرور لاگو کرتے تھے لیکن اب لوگوں کے ذہن یکسر تبدیل ہو چکے ہیں۔ ہر کوئی اپنی ڈیجیٹل ڈیوائس میں مگن ہے۔ اخلاقی تربیت کا فقدان شدت اختیار کر رہا ہے۔
 بدقسمتی سے جب نبی ﷺکی سنت و سیرت کا مطالعہ نہیں کریں گے تو پریشانیاں جو ہم نے خود پالی ہوئی ہیں ان سے رہائی کی کوئی صورت نہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے نبیﷺ کی سیرت کا مطالعہ چھوڑ دیا ہے صرف اس زعم میں مبتلا ہوتے ہوئے کہ ہمیں سب معلوم ہے، اگر معلوم ہوتا تو اخلاقی باختگی اس نہج تک نہ پہنچتی کہ پاکستانی معاشرے میں سکون ہی غارت ہو گیا ہے۔
پنجاب میں گریڈ 20 کے افسر رائے منظور ناصر جن کی قائدانہ صلاحیتوں کے سب معترف ہیں انھوں نے نبیﷺسے عقیدت کے سبب معاشرے کی دکھتی رگ پر یوں ہاتھ رکھا ہے کہ انھوں نے مطالعۂ سیرت پر ایک انعام ہی مقرر کر دیا ہے۔
 رائے منظور ناصر نے خود سیرت پر ایک شہر آفاق کتاب تصنیف کی اور لوگوں کو ترغیب دی کہ وہ سیرت النبیﷺ کتاب کو یاد کریں۔ اس کے بعد ایک مقابلہ کا انعقاد کیا جائے گا اور جیتنے والے کو 20 لاکھ بطور انعام دیا جائے گا اور 50 لاکھ کے دیگر انعامات بھی دیے جائیں گے۔ میٹنگ میں انھوں نے اپنے مقصد کو واضح کیا کہ معاشرتی بے چینی بڑی تیزی سے کروٹ لے رہی ہے اور یہ بے چینیاں قوموں کا شیرازہ بکھیر دیتی ہیں، لہٰذا وقت کی پکار ہے کہ دنیا کے بہترین مصلح کی حیات مبارکہ کو پڑھا جائے تاکہ ہم اس روشنی کی پیروی میں سماجی حالات کو بہتر بنا سکیں۔ 
مقابلے میں حصہ لینے کے لیے اس وٹس ایپ نمبر 1182211-0344 پر پیغام بھیجا جاسکتا ہے۔ میرے نزدیک ایسے مقابلوں کے انعقاد سے ایک تحریک پیدا ہوگی کہ مطالعہ سیرت سے عوام کے ذہنوں میں کچھ نہ کچھ تعلیمات گاہے بگاہے کلک ہوتی رہیں گی۔ اگر مخیر حضرات بھی رائے منظور ناصر کی طرح کوئی نسخہ کیمیا پیش کریں یا کوئی بھی معاشرے کی اصلاح کا بیڑا اٹھائے تو یقینا بہتری کی کوئی صورت نکلے گی۔
٭…٭…٭

ای پیپر-دی نیشن