لطیف کھوسہ ساتھی وکلاء کے ساتھ لفٹ میں پھنس گئے
مگر وہ تو بضد ہیں کے پھنسے نہیں پھنسا ئے گئے تھے۔ی ان پر قاتلانہ حملہ تھا مارنے کی سازش تھی۔ اب یہ کہانی سنائی جا رہی ہے۔جب ایک عدد بے چاری دکھاں دی مار جنڈی علیل جیسی لفٹ میں 18 افراد سوار ہونگے تو شکر کریں وہ رک گئی۔ اگر گر جاتی بنی نوع انسان کے اضافی وزن سے تو کیا ہوتا۔ ہمارے وکلا بھی آج کل سلم سمارٹ نہیں رہے۔ خوب تن و نوش کے مالک ہوتے ہیں۔وہ زمانہ گیا جب قانون کی کتابیں پڑھ پڑھ کر دن رات ایک کرکے تیاری کرتے تھے سو کھ کر کانٹا ہوجاتے تھے۔ اب تو عدالت کے علاوہ بھی دیگر ذرائع آمدنی کے لیے بھی وہ مصروف ہوتے ہیں‘ جبھی تو اب جس کے جی میں آتا ہے‘ وہ کالا کوٹ پہن لیتا ہے۔ اب تو قانون کا امتحان پاس کرانے والے نجی ادارے بھی معقول معاوضہ پر آپ کو وکالت کی سند عطا فرماتے ہیں۔ یوں ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آتا ہے۔ بہر کیف بات کہاں سے کہاں جا نکلی۔ کھوسہ صاحب کی لفٹ کے اندر سے جو ویڈیو وائرل ہوئی‘ اس میں وہ سب خیریت موجود اور خیریت مطلوب والی حالت میں تھے مگر بہرحال آدھا گھنٹہ لفٹ میں بند ہونا قیامت خیز تجربہ ہوتا ہے جو اس مرحلہ شوق سے گزرے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ دل و نظر پہ کیسے کیسے قیامت کے امتحان گرتے ہیں۔ لفٹ کے باہر آتے ہی لطیف کھوسہ جس طرح برسے اس سے معلوم ہوتا تھا وہ اندر یہی سوچتے رہے ہونگے کس کو موردالزام ٹھہرانا ہے اور کس کس پر بجلی گرانی ہے۔ کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ حضرت آپ 6 افراد والی لفٹ میں درجن بھر بندے لے لیکر کیوں گھسے تھے۔ شاید وزن کی زیادتی کی وجہ سے اس کا سارا سسٹم بیٹھ گیا۔ اب باہر آکر جس طرح وہ ملکی سسٹم پر برس رہے ہیں‘ خاکم بدہن کہیں یہ بھی نہ بیٹھ جائے۔ ورنہ بھلا کوئی انہیں کیوں مروانا چاہے گا۔ ان سے ابھی بہت سے کام لینے ہیں۔ جمہوریت کے ماموں نے۔
٭٭……٭٭
نسیم شاہ دوسرا ون ڈے جتوا کر سوشل میڈیا پر چھا گئے
اس وقت ہماری قومی کرکٹ ٹیم نے نوجوان باولر نسیم شاہ پوری قوم کے آنکھوں کا تارا بنے ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ہر جگہ ان کے چرچے ہو رہے ہیں۔ انہوں نے جس کمال مہارت سے دوسرا ون ڈے میچ حریف افغان ٹیم کے جبڑوں سے کھینچ نکالا‘ وہ قابل تعریف ہے۔ اس سے قبل بھی انہوں نے انہی کھلاڑیوں کے ہاتھوں سے کرکٹ میچ اس طرح نکال کر اپنی ٹیم کو جتوایا تھا۔ تب آخری اوور میں چھکے کی ضرورت تھی‘ اب آخری بالز پر چوکے کی ضرورت تھی۔ اس پر افغان ٹیم تلملا اٹھی کیونکہ انہوں نے جس جانفشانی سے 301 رنز کا پہاڑ کھڑا کر دیا تھا‘ اسے دیکھ کر تو کسی بھی ٹیم کے اوسان خطا ہوسکتے ہیں مگر انعام الحق اور حارث نے عمدہ کھیلتے ہوئے حالات سنبھالے۔ حارث کا آئوٹ بددیانتی کی اعلیٰ مثال بن کر مدتوں افغان کرکٹ ٹیم کے ماتھے پر چمکتا رہے گا۔ اب جوہونا تھا ہو چکا‘ نسیم شاہ نے فوری حساب بیباک کر کے بدلہ لے لیا۔کرکٹ کے شائقین‘ ان کی بلائیں لے رہے ہیں۔ ویسے بھی ہارا ہوا میچ جینے کا مزہ ہی اپنا ہوتا ہے۔ اب اس تین روزہ ون ڈے کی سریز میں پاکستان کو دو صفر کی برتری حاصل ہو گئی ہے۔ اب‘ تیسرا میچ آج ہو رہا ہے۔ جب تک یہ سطور آپ کے ہاتھوں میں ہوگا۔ اس کا تیجہ بھی آچکا ہے۔ اب دیکھنا ہے اور سب کی دعا ہے کہ یہ میچ بھی پاکستان جیت کر کلین سویپ کر لے۔ اس طرح ایک تیر سے دو شکار ہونگے۔ ایک تو افغان ٹیم کا غرور بھی ٹوٹے گا اور بھارت پر بھی دھاک بیٹھے گی جس کا میڈیا پہلے ہی بابراعظم‘ شاہین آفریدی کے بعد اب نسیم شاہ کے خوف میں مبتلا نظر آ رہا ہے۔ دعا ہے بھارت میں بھی پاکستانی ٹیم اسی طرح بھارت کو اس کے گھر میں گھس کر میدان کی دھول چٹائے۔
٭٭……٭٭
بجلی بل عوام کی برداشت سے باہر ہو گئے‘ صارفین سڑکوں پر نکل آئے
اس بار تو کمال کر دیا۔ لوگوں نے بجلی کے ہوشربا لوڈ نے صارفین کے فیوز اڑا دیئے ہیں۔ یہ بے چارے صارفین ٹیکسوں سے بھرے بجلی کی قیمت سے ڈبل بل ادا کرتے کر تے تباہ ہو گئے ہیں۔یہ صارفین اب بجلی کی تقسیم کار اور بل وصول کرنے والے کمپنیوں کے خلاف چاروں صوبوں میں زبردست احتجاجی مظاہرے کرکے اپنی نیم جان تن میں زندگی کی رمق کی موجودگی کا اظہار کر رہے ہیں۔ اب باری ہے ان اداروں پر بجلی گرانے کی جن کی ناقص تقسیم اور بجلی چوروں کی پشت پناہی کے بدولت صارفین بجلی جل بھن کرکباب ہو تے آرہے ہیں۔ ملک بھر میں بے شمار علاقوں میں کنڈے ڈال کر بجلی چوری کی جاتی ہے۔ لاکھوں سے یہ منتھلیاں لے کر بجلی چوری کراتے ہیں۔ ایسے علاقوں کو بے نور کرنے کی بجائے یہ ادارے ایمانداری سے بل ادا کرنے والوں کو لوڈشیڈنگ اور مہنگے بل ڈال کر ان کی زندگی اجیرن کرتے ہیں۔ اب یہ سب مل کر اس ناانصافی اور بجلی کے بلوں میں ناجائز ٹیکسوں کی بھرمار کے خلاف سڑکوں پر ہیں۔ یاد رکھیں۔
جو دریا جھوم کے اٹھتے ہیں
تنکوں سے نہ ٹالیں جائیں گے
اگر بل جلائو تحریک جڑ پکڑ گئی تو حالات کنٹرول سے باہر ہونگے۔ یہ سابق وزیراعظم کی طرح بل جلانے کا ڈرامہ نہیں‘ جو رات کو کس کا بل جلانے کے بعد اگلے ہی دن اپنے سارے بل جمع کرا دیتے تھے۔ یہ عوام کا فیصلہ ہے جس کیآ گے نہ کوئی پہلے ٹھہرا تھا نہ اب ٹھہرے گا۔ بہت ہو چکی کمپنیوں کی من مانی کیا یہاں ایسٹ انڈیا کمپنی کا راج ہے۔ اس کے راج میں بھی اتنا ظلم وستم عوام پر نہیں ہوتا تھا۔ ان بجلی چوروں اور ان کے پروردہ جو بھی ہیں‘ سب کو سزا ملنی چاہئے اور بلوں سے ناروا یکس واپس لینے ہونگے۔ ورنہ پھر سڑکوں پر یونہی دمادم مست قلندر ہوتا رہے گا۔
٭٭……٭٭
لاہور میں کئی تھیٹر سیل‘ کئی فنکارائوں کے رقص پر پابندی
وہ دور گیا جب تھیٹر کا دور دورہ تھا۔ بڑے بڑے نامور لکھنے والے اور پڑھے لکھے لوگ اس شعبہ سے وابستہ تھے۔ اس کے باوجود اس دور میں بھی شرفا اسے معیوب نظروں سے دیکھتے تھے۔ پورے ہندوستان میں فلمی دنیا کے وجود میں آنے سے قبل دیہی علاقوں اور چھوٹ بڑے شہروں میں میوزیکل تھیٹر کمپنیاں کام کرتی تھیں جس سے ہزاروں افراد کا روزگار وابستہ تھا۔ بعدازاں یہاں کے نامور لکھاری‘ فنکار‘ موسیقار سب پردہ سیمیں (فلم)کے اسیر ہو گئے اور نگارخانے آباد ہوتے چلے گئے۔ تھیٹر کی دنیا پیچھے چلے گئی ، یوں سمجھ لیں یہ نونٹکی بند ہو گئی۔ قیام پاکستان کے بعد دیہی علاقوں اور چھوٹے بڑے شہروں میں تھیٹرز کا وجود نظر آتا تھا مگر وہ بات کہاں مولوی مدن جیسی۔
اب چند بڑے شہروں میں دور دراز سے آنے والے تماش بینوں کی وجہ سے تھیٹر کا کاروبار چل رہا ہے۔ جو صرف فحش ناچ گانے اور بے ہودہ جملے سننے کیلئے تھیٹر آتے ہیں۔ ادبی و ثقافتی رنگ ختم‘ اب جہالت اور بدذوقی کا دور دورہ ہے۔ فنکار بے ہودہ‘ فحش جملوں کو فنکاری اور فنکارائیں واہیات اچھل کود کو رقص کا نام دیکر جو کچھ کر رہے ہیں‘ اس پر تو بہت پہلے سے پابندی لگ جانی چاہئے تھی مگراب نگران عبوری دور حکومت میں جس طرح تھیٹر میں لچر پن اور فحش ناچ گانے پر پابندی کی مہم چلی ہے‘ خدا کرے اس کے دوررس نتائج مرتب ہوں اور نامناسب لباس و جملوں پر اچھل کود کرنے والے اداکاروں پر پابندی کے علاوہ ان تھیٹروں کو بھی سیل کیا جانے کا سلسلہ تھیٹر کی اصلاح تک جاری رہے۔