اِسلام کی عظمت کا زمانہ
حکیم الامت علامہ محمد اقبال لکھتے ہیں: ’’دنیا کے دل میں انقلاب ہے اس واسطے قلوبِ انسانی اِس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ اِسلام کی عظمت کا زمانہ انشاء اللہ قریب آ رہا ہے‘‘۔ (اقبال نامہ مجموعہ مکاتیب اقبال از شیخ عطا اللہ ص 459 )
یورپ میں قیام کے دوران علامہ اقبال نے ا یک غزل لکھی، اِس کے چند اشعار پیش خدمت ہیں۔ اِس غزل کا عنوان مارچ 1970ء ہے:۔
سنا دیا گوشِ منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر
جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا، پھر استوار ہو گا
نکل کر صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا ۔
سنا ہے یہ قْدسیوں سے میں نے، وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا
سفینہ برگِ گل بنا لے گا قافل مورِ ناتواں کا
ہزار موجوں کی ہو کشاکش، مگر یہ دریا کے پار ہو گا
میں عظمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شرر فشاں ہو گی آہ میری، نفس مرا شعلہ بار ہو گا
(بانگ درا)
علامہ اقبال ایک خط (1916ئ) میں رقمطراز ہیں:
’’یہ مثنوی جس کا نام ’’اسرارِ خودی‘‘ ہے، ایک مقصد سامنے رکھ کر لکھی گئی ہے میری فطرت کا طبعی اور قدرتی میلان و بے خودی کی طرف ہے۔ مگر قسم ہے اْس خدائے واحد کی جس کے قبضے میں میری جان و مال و آبرو ہے۔ میں نے یہ مثنوی ازخود نہیں لکھی، بلکہ مجھ کو اس کے لکھنے کی ہدایت ہوئی ہے۔ اور میں حیران ہوں کہ مجھ کو ایسا مضمون لکھنے کے لیے کیوں انتخاب کیا گیا۔ جب تک اس کا دوسرا حصہ ختم نہ ہو لے گا میری روح کو چین نہیں آئے گا۔ اس وقت مجھے یہ احساس ہے کہ بس میرا یہی ایک فرض ہے اور شاید میری زندگی کا اصل مقصد ہی یہی ہے۔ مجھے یہ معلوم تھا کہ اس کی مخالفت ہو گی کیونکہ ہم سب انحطاط کے زمانے کی پیداوار ہیں اور انحطاط کا سب سے بڑا جادو یہ ہے کہ یہ اپنے تمام عناصر و اجزا و اسباب کو اپنے شکار (خواہ وہ شکار کوئی قوم ہو، خواہ فرد) کی نگاہ میں محبوب و مطلوب بنا دیتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بدنصیب اپنے تباہ کرنے والے اسباب کو اپنا بہترین مربی تصور کرتا ہے۔ مگر:
’’من صدائے شاعر فرداستم‘‘
اور
نامید ستم زیاران قدیم
طورمن سوز و کہ می آید کلیم
نہ حسن نظامی رہے گا نہ اقبال۔ یہ بیج جو مردہ زمین میں اْگے گا، ضرور اْگے اور علی الرغم مخالفت بار آور ہو گا۔ مجھ سے اس کی زندگی کا وعدہ کیا گیا ہے۔ الحمد اللہ! ’’(اقبال بنام شاد مرتبہ محمد عبداللہ قریشی ص 164-163)
نظم طلوعِ اِسلام (1922 ع) کا ابتدائی بند ملاحظہ فرمائیے:
عروق مردہ مشرق میں خونِ زندگی دوڑا
سمجھ سکتے نہیں اس راز کو سینا و فارابی
مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفانِ مغرب نے
تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی
عطا مومن کو پھر درگاہِ حق سے ہونے والا ہے
شکوہ ترکمانی، ذہنِ ہندی، نطقِ اعرابی
حکیم الامت علامہ اقبال نے صدیوں سے غلامی اور پستی و انحطاط سے نبرد آزما قوم کو مثنوی اسرار و رموز، کی شکل میں ایک دستور العمل دیا ہے۔ یہ ایک زندہ چیز ہے۔
فرماتے ہیں:۔
چشمہ حیواں بر ا تم کردہ اند
محرم رازِ حیا تم کردہ اند
(شعر …33 )
(ترجمہ: آب حیات میرے نصیب کیا گیا ہے۔ مجھے راز حیات کا محرم بنایا گیا ہے)
سِرعِشِ جاو داں خو اہی بیا
ہم زمیں ہم آسماں خواہی بیا
(شعر …36 )
(ترجمہ: اگر تو عیشِ جاوداں کا راز معلوم کرنا چاہتا ہے تو میرے پاس آ، تو دنیا کا خواہاں ہو یا آخرت کا، میرے پاس آ۔)
پیامِ مشرق، کا ایک شعر ملاحظہ کیجئے:
بے نازانہ زشوریدہ نو ایم مگذر
مرغِ لا ہو تم از دوست پیامے دارم
(ترجمہ: میری شاعری کو ایک جنونی کی باتیں کہتے ہوئے بے نیازی سے مت گزر جائو۔ میں طائر لاہوتی ہوں اور تمہارے لئے اللہ تعالیٰ ک پیغام لایا ہوں)
’’مثنوی اسرار و رموز‘‘ کا اختتام عْرضِ حال مصنف بحضور رحمتہ لِلّعَالٰمِین سے ہوتا ہے۔ فرماتے ہیں: (ترجمہ)۔ ’’اگر میرے اشعار میں قرآن پاک کے علاوہ کچھ اور پوشیدہ ہے تو میرے فکر کے شرف کا پردہ چاک کر دیجئے، مجھے خوار و رسوا کر دیجئے یعنی اپنے بوسہ پا سے محروم رکھیے۔ آپ کی آنکھ پر تو دلوں کی بات روشن ہے۔ اگر میں نے اپنی شاعری میں قرآن پاک کے موتی پروئے ہیں اگر میں نے مسلمانوں سے حق بات کہی ہے۔ تو اے وہ ذات جس کے احسان سے ناکِس ، کس بن جاتا ہے۔ (میرے لئے دْعا فرمائیے) اور یہ ایک دعا ہی میری ساری گفتار کا اجر ہو گا۔ خدائے عز و جل کے سامنے عرض کیجئے کہ میرا عشق عمل سے ہمکنار ہو‘‘۔
عمل ہی اصل چیز ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کی اسی پر جواب دہی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ تو نافذ ہو کر ہی رہے گا۔ وہ اَلٰھکْم اِللہ’‘ وَّاحِدْ‘ ہے۔ اسکے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ تمام طاقت اللہ ہی کو ہے وہ قادر مطلق ہے۔
اصل مسئلہ تو ہمارا ہے جب یہ پوچھا جائے گا کہ ہم کِس کے ساتھ کھڑے تھے جس وقت حق اور باطل برسرپیکار تھے، تو اس وقت ہمارا جواب کیا ہو گا۔ ہمارے جواب پر ہماری تقدیر ہے اور اْسی جواب پر ہماری اِس دنیا اور اگلے جہاں کی کامیابی کا انحصار ہے (وعلینا الالبلغ المبین)