ورلڈ گیمز بلائنڈ کرکٹ میں پاکستان، بھارت کو ہرا کر چیمپئن بن گیا
آج کل ہمارے کرکٹ کے چمن میں جو فصل بہاراں آئی ہوئی ہے۔ اس سے تو ہر شخص فرحاں و شاداں ہے۔ ابھی ایک روز قبل ہی سری لنکا میں ہماری آنکھوں والی کرکٹ ٹیم نے بدمزاجی کے لیے مشہور افغانی بلونگڑوں کو ون ڈے سیریز میں ہرا کر ون ڈے کے عالمی چیمپئن ہونے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ اسکے آخری میچ میں بھی افغان باولر فرید نے اپنے خبث باطن کا مظاہرہ کرتے ہوئے بابر اعظم اور امام الحق سے جو بدتمیزی کی اس پر سخت ایکشن لینا ضروری ہے۔یہ کام عالمی کرکٹ کونسل اور پی سی بی کو لینا ہو گا۔اب گزشتہ روز ہماری بلائینڈ (نابینا) ٹیم نے بدمست بھارتیوں کی ٹیم کو بلائینڈ کرکٹ ورلڈ گیمز کے فائنل میں 8 وکٹوں سے شکست دے کر فتح کا تاج اپنے سر سجا لیا اور ورلڈ چیمپئن بن گئی۔ یوں بدمزاجی اور بدتہذیبی کا سر نیچا ہوا۔ خدا کرے ہماری کرکٹ ٹیم کی کامیابیوں کا یہ سفر یونہی جاری رہے اور ملک کے فخر و اعزاز میں اضافہ ہوتا رہے۔ اس وقت ایشیا کپ سر پر ہے۔ سب کی نظریں اس پر لگی ہیں بھارتی سورمائوں کی کرکٹ ٹیم کو پاکستان آنے سے نجانے کیوں موت پڑتی ہے۔ ہمارے شائقین نے کون سا ان کو کھا جانا ہے۔ بے شک ہم گوشت خور ہیں مگر حرام خور…میرامطلب ہے آدم خور نہیں ہیں۔ اس کے برعکس بھارتی کرکٹ شائقین کی مخالف ٹیموں کے ساتھ بدتہذیبی کی شکایات عام ہیں۔ اس کے باوجود ہمارے مرد میدان کھلاڑی بھارت جانے سے نہیں گھبراتے اور ایشیا کپ کھیلنے کے لیے بھارت جار ہے ہیں۔ یہ ہوتی ہے بہادری، مردانگی اور مقابلے کی ہمت پوری قوم اپنے کھلاڑیوں کی کامیابیوں کیلئے دعاگو ہے۔
٭٭٭٭٭
کامران ٹیسوری کا بال بال قرض میں جکڑے لوگوں کو بالوں کی سٹائلش کٹنگ کا مشورہ
اب کیا کریں کراچی جیسے غریب پرور۔ جدید لائف سٹائل اورفیشن والے شہر میں موجودہ اور اس سے قبل کے گورنر بھی بڑے سٹائلش آئے۔ پہلے والے گورنر صاحب کو پرانی فلموں کے ہیرو کی طرح بالوں کو بنانے کا شغف تھا۔ یہی اب موجودہ گورنر کو بھی ہے جو عوام کو خوبصورت ہیر کٹنگ کا مشورہ دیتے ہوے اس باربر کا نام بھی بتا رہے ہیں جو آج کل کاروبار میں مندے کا شاکی ہے اور اس کی شہر میں کئی برانچیں ہیں۔ بقول گورنر سندھ اس کاروباری شخص نے ان سے اپیل کی تھی کہ ان کی مشہوری کے لیے ایسا بیان دیں کہ لوگ ان کی دکانوں پر آئیں۔ ہمارے عدل پرور گورنر نے ان کی درخواست قبول کی۔ اس سے ان کی رعایا سے محبت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس سے قبل وہ گورنر ہائوس کے باہر عدل کی گھنٹی لٹکا کر پہلے ہی اپنی انصاف گستری کا بول بالا کر چکے ہیں۔ ورنہ ان سے پہلے والے گورنر کو تو جدید و قدیم ہیوی موٹر بائیکس رکھنے ان پر ریس لگانے کا خبط تھا۔ گورنر ہائوس ان کے دور میں موٹر سائیکلوں کے اصطبل کا منظر پیش کرتا تھا۔
اب معلوم نہیں ٹیسوری صاحب کی عدل کی گھنٹی کسی نے بجائی بھی ہے یا نہیں۔ اگر بجائی ہے تو کتنوں کو انصاف ملا ہے۔ کیا معلوم گھنٹی کے اردگرد ایسے خوفناک حبشی غلاموں کا پہرہ لگایا گیا ہو جن کی شکلیں دیکھ کر ہی فریادیوں کی روح کانپ اٹھتی ہو اور وہ گھنٹی بجانے کی بجائے دور ہی سے رخصت ہو جتے ہوں کہ کہیں بجانے کے جرم میں ہی ان کی شامت نہ آ جائے۔ ورنہ اب تک تو لاکھوں سائل و فریادی یہ گھنٹی بجا بجا کر پورا گورنر ہائوس سر پر اٹھا چکے ہوتے مگر ایسی کوئی خبر سامنے نہیں آئی۔
٭٭٭٭٭
اتر پردیش میں ٹیچر کا ہندو طلبہ کو مسلمان طالب علم کو تھپڑ مارنے کا حکم
یہ طمانچے بھارتی مسلمان کم سن طالب علم کے رخسار پر نہیں بھارت کے نام نہاد جمہوری چہرے پر مارے گئے ہیں۔ ان کی گونج اور نشان صدیوں تک باقی رہے گی۔ اس وقت تک جب تک کوئی اور محمد علی جناح جیسا قائد جنم نہیں لیتا اور بھارتی محکوم مسلمانوں کی قیادت کرتے ہوئے انہیں موتیوں کی مالا کی طرح ایک لڑی میں پرو نہیں دیتا۔ ایسا پردہ غائب سے کب ظہور میں آتا ہے۔ ’’دنیا ہے تیری منتظر اے روز مکافات‘‘ یہ واقعہ کسی گلی محلے میں بچوں کے باہمی جھگڑے کے دوران پیش آیا ہوتا تو شاید ہی کوئی اس پر توجہ دیتا۔ بچوں کا کیا ہے ابھی لڑتے ہیں کچھ دیر بعد صلح کر لیتے ہیں۔ یہ بدترین واقعہ مسلم دشمنی میں مشہور وزیر اعلیٰ آدیتیہ یوگی کے صوبے اتر پردیش میں پیش آیا جہاں اس موذی شخص نے ہندوئوں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف اتنا زہر گھولا ہے کہ اب سکول کے طلبہ بھی اس سے محفوظ نہیں رہے۔ مظفر نگر کے ایک سکول میں متعصب ہندو خاتون ٹیچر نے کسی بات پر مسلمان کم عمر طالب علم کو کلاس میں کھڑا کر کے پہلے تو مسلمانوں کے خلاف خوب بکواس کی اپنے اندر کا زہر اْگلا اس کے بعد کلاس کے باقی طالب علموں کہ کہا کہ وہ سب ایک ایک کر کے آئیں اور اس کے منہ پر زوردار طمانچہ رسید کریں۔ اس تکلیف دہ عمل میں وہ مسلمان طالب علم بچہ شدت تکلیف سے روتا رہا۔ بچے تو آخر بچے ہوتے ہیں کئی ہندو طالب علم بچوں نے یا اس کے دوستوں نے ہلکی سے چیت رسید کی تو ٹیچر نما حیوان نے انہیں زور سے تھپڑ لگانے کا حکم دیا۔ بھارت کا سوشل میڈیا اور سیاستدان ہی نہیں سول سوسائٹی نے اس پر بھرپور ردعمل دیا ہے۔ اگر یہ معاملہ عالمی سطح پر اٹھایا جائے مسلم ممالک کے سوشل میڈیا پر چلایا جائے تو بھارت کو سبق سکھایا جا سکتا ہے یہ انسانی حقوق کی ہی نہیں بچوں کے حقوق کی بھی بدترین خلاف ورزی ہے جنہیں ذات، نسل، زبان یا مذہب کے نام پر ناروا سلوک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس کے منفی ، نفسیاتی ، روحانی و ذہنی اثرات مدتوں ان کی شخصیت کو متاثر کرتے ہیں۔ اس سنگین جرم کے خلاف آواز بلند کرنا تمام انسانوں کا فرض ہے۔
٭٭٭٭٭
گزشتہ 6 ماہ میں ساڑھے 4 لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ گئے
اپنا گھر بار یار دوست۔ ماں باپ بیوی بچے چھوڑ کر جانا کوئی آسان کام نہیں۔ ہجرت کا یہ سفر بہت لمبا اور دردناک ہوتا ہے۔ اگر قانونی راستے سے جانا ہو تو وسیلہ ظفر بھی بن جاتا ہے۔ اگر غیر قانونی ہو تو دکھ اور ابتلا کا ذریعہ ہوتا ہے۔ تارکین وطن جو غیر قانونی طور پر جاتے ہیں ان کی المناک ہلاکتوں کی داستان ہم آئے روز سنتے ہیں جو قانونی طریقے سے جاتے وہ چونکہ زیادہ تر پڑھے لکھے اور ہنر مند ہوتے ہیں۔ کوئی ڈاکٹر ہے تو کوئی انجینئر، کوئی کاروباری ہے تو کوئی صنعتی علوم کا تجربہ رکھتا ہے۔ وہ تو باہر جا کر اپنی جگہ بناتے ہیں۔ باقی غیر ہنرمند اور مزدور پیشہ محنت کش بہت سخت زندگی بسر کرتے ہیں۔ اس کی تمام تر کوشش پیسہ پیسہ بچا کر اپنے گھر والوں کو بھیجنا ہوتا ہے۔ اس داستان ہجرت کا یہی ایک وہ معاشی پہلو ہے جسے مدنظر رکھتے ہوئے وزیر اعظم نے بھی کہا ہے کہ ’’نوجوانوں کے باہر جانا اچھا ہے۔‘‘ واقعی اس طرح ان کی ترسیلات زر کی وجہ سے ملکی معاشی حالت بھی بہتر ہوتی ہے اور ان کے گھروں میں بھی خوشحالی آتی ہے۔ اب اگر حکومت مانتی ہے کہ نوجوانوں کا باہر جانا فائدہ مند ہے تو پھر وہ کوئی ایسی پالیسی بنائے کہ پاکستان سے ہر سال 5 یا 10 لاکھ ہنرمند ، محنت کش اور ڈاکٹر و انجینئر قانونی طور پر کم از کم خرچ پر بیرون ملک جائے۔ اگر ایسا ہو جائے اور لاکھوں افراد قانونی طریقے سے جائیں تو وہ خود حکومت کے شکر گزار ہوں گے اور ان کے گھر والے بھی۔ کم از کم اس طرح تارکین وطن کی ہلاکتوں کے صدمے سے تو جان چھوٹے گی۔ ہمارے حکمرانوں کی ناقص منصوبہ بندی اور پالیسیوں کی وجہ سے پہلے ہی ہمارے ملک میں غربت ، بے روزگاری ، بیماری افراط زر کے علاوہ بچوں کی فوج ظفر موج بنانے کے علاوہ ناخواندگی کا دور دورہ ہے۔ باہر جانے کا شوق جن کو ہے انہیں سرکاری پالیسی کے تحت اگر بھیجا جائے تو شاید یہ ہماری تکالیف میں کمی آ جائے۔
غربت کی ناقابل برداشت تکالیف کے مقابلے میں یہ ہجرت کا کرب قدرے قابل برداشت ہے۔