توشہ خانہ کیس، اسلام آباد ہائیکورٹ محفوظ فیصلہ آج سنائے گی
اسلام آباد (وقائع نگار+ خصوصی رپورٹر) اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل ڈویژن بنچ نے توشہ خانہ فوجداری کارروائی کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطلی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی کی بہنیں علیمہ خانم اور عظمی خان بھی کمرہ عدالت موجود تھیں۔ بیرسٹر علی ظفر نے چیئرمین پی ٹی آئی کی بہنوں سے ملاقات کی استدعا کی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آج سزا معطلی کی درخواست پر فیصلہ کردیں گے۔ چیف جسٹس نے الیکشن کمشن کے وکیل امجد پرویز سے کہا کہ آپ نے چھ نکات اٹھائے تھے اسی پر رہیں۔ امجد پرویز نے کہاکہ 2017 میں الیکشن کمیشن کو جمع کرائے گئے گوشوارے چھپائے تھے۔ وکیل الیکشن کمشن امجد پرویز نے سزا معطلی کی مخالفت کرتے ہوئے مختلف قوانین اور عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کیس میں پبلک پراسیکیوٹر کو بھی پہلے نوٹس کیا جانا ضروری ہے۔ کہا گیا کہ سیکرٹری الیکشن کمشن کے پاس اختیارات نہیں، سپیشل پراسیکیوٹر کی تعیناتی سے متعلق سوالات سامنے آئے، ایسے کیسز میں سپیشل پراسیکیوٹر کی تعیناتی ضروری نہیں ہے، کورٹس نے دیکھا کہ سپیشل تعیناتی کی ضرورت نہیں مگر جو پراسیکیوٹر موجود تھے آسکتے تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ شکایت تو الیکشن کمیشن نے فائل کی تھی ریاست نے نہیں، ٹرائل کورٹ میں آپ نے یہ بات نہیں کی آپ پہلی بار یہ کہہ رہے۔ امجد پرویز ایڈووکیٹ نے بھارتی عدالت کے فیصلہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ راہول گاندھی کو ایک پرائیویٹ کمپلینٹ میں دو سال کی سزا ہوئی، راہول گاندھی نے سزا معطلی کی درخواست دائر کی جو خارج کر دی گئی، عدالت نے فیصلہ دیا کہ سزا معطل کرنا کوئی ہارڈ اینڈ فاسٹ رول نہیں ہے، ہمارے ہاں کم سے کم سزا ایک سال جبکہ بھارت میں تین سال ہے، سزاؤں کے حوالہ سے ہمارے اور بھارت کے قوانین میں بہت فرق ہے، میں شارٹ سینٹینس کی بنیاد پر سزا معطلی کی اپیل کی مخالفت نہیں کررہا، میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ حکومت کو نوٹس کیے بغیر اپیل پر کارروائی نہیں کی جا سکتی، قانون بھی یہی کہتا ہے کہ حکومت کو نوٹس ضروری ہے، ضابطہ فوجداری میں سزا معطلی کی درخواست میں شکایت کنندہ کو فریق بنانے کا ذکر نہیں، استدعا ہے کہ عدالت درخواست میں ریاست کو نوٹس جاری کرے، ریاست کو نوٹس جاری کئے اور موقف سنے بغیر سماعت آگے نہ بڑھائی جائے۔ امجد پرویز ایڈووکیٹ کی جانب سے ظہور الہی کیس کا بھی حوالہ دیا گیا اور کہا گیا کہ میں ابھی ان کی سزا معطلی کی درخواست کی مخالفت کر ہی نہیں رہا، میں ابھی یہ کہہ رہا ہوں کہ اس طرف جانے سے پہلے پبلک پراسیکیوٹر کو نوٹس کیا جانا لازم ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ججمنٹ کس نے دی اس میں تو درخواست خارج ہے۔ امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہاکہ مجھے اس حوالے سے متعلق کوئی علم نہیں، ہمیشہ عدالتی فیصلے عدالت کی معاونت کے لیے دیئے جاتے ہیں۔ عمران خان کی سزا معطلی درخواست میں ریاست کو فریق نہیں بنایا گیا، چیف جسٹس نے کہاکہ یہ الیکشن کمیشن کی عمران خان کے خلاف پرائیویٹ کمپلینٹ ہے، ٹرائل کورٹ میں کہیں ریاست کا ذکر نہیں آیا، یہاں فریق بنانا کیوں ضروری ہے؟، نیب کیسز میں کمپلیننٹ کو کبھی پارٹی نہیں بنایا جاتا۔ امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہاکہ نیب کے قانون میں پراسیکیوٹر کی تعریف کی گئی ہے، نیب کیس میں سٹیٹ آتی ہی نہیں ہے، نیب پراسیکیوٹر کو سنا جاتا ہے، ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ نیب کو سنے بغیر کوئی آرڈر کیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نیب کے مقدمات میں تو پبلک پراسیکیوٹر موجود نہیں ہوتا۔ امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہاکہ نیب کے اپنے پراسیکیوٹر موجود ہوتے ہیں جنہیں سنا جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے امجد پرویز سے کہا کہ آپ کا یہ نکتہ نوٹ کر لیا مزید دلائل دیں، جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ الیکشن کمیشن کی شکایت درست فورم پر دائر نہ ہونے کا اعتراض اٹھایا گیا، کرپٹ پریکٹیسز کے خلاف اس قانون کے تحت تمام شکایات سیشن عدالت میں دائر ہوئیں، اگر مجسٹریٹ کی سکروٹنی والی بات مان بھی لی جائے تو ٹرائل سیشن عدالت نے ہی کرنا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ مجسٹریٹ نے تعین کرنا ہے کہ سیشن عدالت کا ہی دائرہ اختیار بنتا ہے یا نہیں؟، جس پر امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ تعزیرات پاکستان کے تحت کسی بھی مقدمے کا ٹرائل ہونا ہے، ٹرائل کورٹ ہی کسی بھی مقدمے میں ٹرائل چلاتی ہے، مجسٹریٹ کے سامنے جب شکایت جاتی ہے تو وہاں سے ٹرائل کا آغاز کیا جاتا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ کمپلینٹ فائل کرنے میں کوئی کوتاہی ہے بھی تو اس کا اثر ٹرائل پر نہیں پڑے گا؟، جس پر امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہاکہ جی میرا یہی نقطہ ہے کہ ٹرائل تو عدالت نے ہی کرنا ہے، چاہے مجسٹریٹ کے پاس فائل ہو یا براہ راست، چیئرمین پی ٹی آئی کی اپیل میں اٹھائے گئے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے وکیل نے کہا کہ دائرہ اختیار کا اس معاملے میں ایشو ہی نہیں ہے، قانون کہتا ہے competent jurisdiction والی عدالت ہی آرڈر پاس کر سکتی ہے، الیکشن ایکٹ کے مطابق سیشن کورٹ بالکل competent jurisdiction والی کورٹ ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کہہ رہے ہیں کہ اگر یہ غلطی ہے بھی تو وہ ٹرائل کو خراب نہیں کرے گی؟۔ سماعت دوبارہ شروع ہونے پر لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل میں مداخلت نہیں کرنا چاہتا، کچھ فیصلوں کے حوالے دینا چاہتا ہوں، جس کے بعد لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے مختلف عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیا اور کہا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل نے ایک گھنٹہ اس دن لیا، دو گھنٹے آج لے گئے ہیں۔ اس موقع پر امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہاکہ میں کوئی ایسا سیکشن نہیں پڑھوں گا جو نیا ہو، چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل بھی دو بار یہاں، اور ایک بار سپریم کورٹ میں دلائل دے چکے ہیں، انہوں نے الیکشن کمیشن اور سیشن جج کو ولن بنایا ہوا ہے، ابھی وہاں مت جائیں، سزا معطلی پر ہی دلائل جاری رکھیں، عدالتی فیصلوں کا حوالہ دینے کے بعد لطیف کھوسہ واپس بیٹھ گئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کھوسہ صاحب نے کہا تھا کہ ٹیسٹ میچ کا زمانہ چلا گیا، اب ٹونٹی ٹونٹی کا دور ہے، لطیف کھوسہ نے بڑے شائستہ انداز میں کہا ہے کہ مختصر کریں، جس کے بعد وکیل الیکشن کمیشن امجد پرویز نے اپنے دلائل کا دوبارہ سے آغاز کردیا اور کہاکہ لطیف کھوسہ نے سزا معطلی درخواست پر دلائل کیلئے تین دن لیے، ہمایوں دلاور صاحب کو ہم نے مشق ستم بنایا ہوا ہے، جنہوں نے فیصلہ دیا ہوا۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے امجد پرویز ایڈووکیٹ کو روکتے ہوئے کہا کہ اس طرف نہ جائیں۔ امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ انہوں نے چھ نکات اٹھائے میں نے ان کا جواب دینا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ الیکشن کمیشن نے فیصلے میں کہا کہ دفتر جو بھی ضروری ہو کرے، الیکشن کمیشن نے کسی فرد کو تو ہدایت جاری نہیں کی، الیکشن کمیشن کے سیکرٹری کو تو ہدایت جاری نہیں کی، وہ کیوں کمپلینٹ کرے؟۔ امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہاکہ الیکشن کمیشن کو شکایت دائر کرنے کیلئے اجازت نہ ہونے کا اعتراض اٹھایا گیا، درحقیقت سیکرٹری کمیشن نے الیکشن کمیشن کی ہدایت پر ہی شکایت دائر کرنے کی اجازت دی، الیکشن کمیشن کا اجازت نامہ ریکارڈ کا حصہ ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ الیکشن کمیشن نے آفس کو شکایت دائر کرنے کا کہا کسی مخصوص شخص کو نہیں، آپ کی دلیل اپنی جگہ لیکن سیکرٹری کمیشن نے خود کو متعلقہ شخص کیسے سمجھا؟۔ امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہاکہ الیکشن کمیشن کے تمام ممبران نے اپنے فیصلے میں متفقہ طور پر اجازت دی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ الیکشن کمیشن اگر سیکرٹری کمیشن کو ڈائریکشن دیتا تو وہ بات الگ تھی، یہاں الیکشن کمیشن نے سیکرٹری کی بجائے آفس کو یہ ہدایت دی ہے۔ امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ اس کمپلینٹ کا ڈرافٹ الیکشن کمیشن نے منظور کیا، الیکشن کمیشن کے فل کمیشن نے کمپلینٹ کی منظوری دی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کیا آپ نے یہ چیزیں عدالتی ریکارڈ پر رکھی ہیں؟، جس پر امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہاکہ اس کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ الیکشن کمیشن نے آفس کو آرڈر کیا، کیا سیکرٹری کے سوا کوئی اور بھی کمپلینٹ دائر کر سکتا تھا؟، کیا الیکشن کمیشن کا ڈی جی لاء بھی یہ کمپلینٹ دائر کر سکتا تھا؟۔ امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہاکہ سیکرٹری الیکشن کمیشن کا ایڈمنسٹریٹو سربراہ ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے ایڈمنسٹریٹو معاملات رجسٹرار چلاتا ہے۔ چیف جسٹس کیا رجسٹرار کو کوئی کارروائی کرنے کا کہے گا یا آفس کو؟، وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ چیف جسٹس رجسٹرار کو کہیں یا آفس کو دونوں ہی درست ہوں گے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ابھی کیا رہ گیا ہے؟۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ کمپلینٹ کا دورانیہ، حق دفاع ختم ہونے اور دائرہ اختیار طے نہ کرنے کے تین نکات رہ گئے ہیں۔ آفس نے مجھے خواجہ حارث کے بیان حلفی کی مصدقہ کاپی فراہم نہیں کی، میں آخری شخص ہوں گا جو اس پر کاؤنٹر ایفیڈیوڈ جمع کرائے، بیان حلفی کا سپریم کورٹ میں بھی تذکرہ ہوا مگر وہ آفس میں سی ایم کے ذریعے دائر نہیں ہوا، بیان حلفی ادھر ہی دوران سماعت کورٹ کو دیا گیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن میں جمع کرائی گئی اثاثوں کی تفصیلات پبلک دستاویز ہے؟۔ لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے جواب الجواب میں عدالت کے سامنے مختلف قوانین کا حوالہ دیا، فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر کمرہ عدالت میں موجود وکلاء اور دیگر سیٹوں سے کھڑے ہونا شروع ہوگئے جس پر چیف جسٹس نے سب کو بیٹھ جانے کی ہدایت کی اور کہا کہ ایسا نہ کریں سب بیٹھ جائیں۔ دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے وکلاء سے کہا کہ تھینک یو سو مچ، ویٹ فار آرڈر، جس کے بعد ججز کمرہ عدالت سے اٹھ گئے۔ بعدازاں عدالتی عملہ کی طرف سے بتایا گیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواستوں پر فیصلہ آج منگل کے روز سنایا جائے گا۔ دوسری جانب توشہ خانہ کیس آج سپریم کورٹ میں سماعت کیلئے مقرر کر دیا گیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں تین رکنی بنچ اپیل پر سماعت کرے گا۔ تین رکنی بنچ میں جسٹس منیب اختر اور جسٹس اطہر من اﷲ شامل ہیں۔
توشہ خانہ کیس
کوئٹہ (نوائے وقت رپورٹ) بلوچستان ہائیکورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی پر اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کا مقدمہ خارج کر دیا۔ بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس گل حسن ترین نے انصاف لائزر فورم کی درخواست پر فیصلہ سنایا۔ عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف بجلی روڈ تھانے میں درج ایف آئی آر خارج کر دی اور جوڈیشل مجسٹریٹ کی جانب سے جاری چیئرمین پی ٹی آئی کے وارنٹ گرفتاری بھی معطل کر دیئے۔
مقدمہ خارج