طالبان کہاں کھڑے ہیں ؟
جہاں نادر شاہ کھڑا تھا ، جہاں سردار دائود کھڑا تھا ،جہاں ترکئی کھڑا تھا ، وہیں طالبان جمے کھڑے ہیں۔ زمیں جنبد، نہ جنبد گل محمد ۔ پلوں کے نیچے پاکستانیوں کا بہت سا خون بہہ گیا لیکن افغانستان کے رویے کی سختی میں کمی نہ آسکی ۔ یہ کہنا ہے برادرم افتخار سندھو کا ،جن کا میرے ساتھ رابطہ میرے کالموں کے ایک قارئین کے طور پر ہوا لیکن میں نے انھیں صاحب الرائے پایا اور وہ بتدریج میرے کالموں کا موضوع بنتے چلے گئے ۔وہ کثیر المطالعہ ہیں ، سیاست اور وکالت ان کا اوڑھنا بچھونا ہے اور رئیل اسٹیٹ کا بزنس ان کا پیشہ ۔قرآن فائونڈیشن کے سربراہ بھی ہیں جو ایک تھنک ٹینک ہے اور قرآنی تعلیمات کو تجوید دینے کا فریضہ نبھاتا ہے۔
حالات حاضرہ کا تجزیہ کرنا افتخار سندھو کا من بھاتا مشغلہ ہے ۔سندھو صاحب پریس کونسل آف انٹرنیشنل افیئرز (پی سی آئی اے) کے سرگرم اور فعال رکن ہیں۔ پی سی آئی اے کے قیام کو چالیس سال سے اوپر ہو چلے ہیں۔ اس کے ہفتہ وار اجلاس اور خصوصی عوامی سیمینار منعقد ہوتے رہے۔ افغانستان سے امریکی فوج نکل بھاگی تو پی سی آئی اے کے ارکان اور پاکستانی عوام نے شادیانے بجائے اور طالبان کی شاندار فتح کے گن گائے ۔اس موقع پر باقی لوگوں پر الگ تھلگ لائن لی اور چیخ چیخ کر سمجھانے کی کوشش کی کہ تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو۔طالبان کا اصل چہرہ بہت جلد سامنے آجائے گا اور پھر آپ لوگ پچھتائیں گے لیکن اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئی کھیت ۔افتخار سندھو کی ان باتوں کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا طالبان نے اصرار کے ساتھ کہنا شروع کر دیا ہے کہ وہ ڈیورنڈ لائن کو نہیں مانتے وہ پاکستانی طالبان کے حملوں کو روکنے سے قاصر ہیں۔ اس پر پاکستان نے ٹی ٹی پی سے مذاکرات شروع کیے اور انھیں پیشکش کی کہ وہ پاکستان کے آئین کو تسلیم کرلیں اورپاکستانی معاشرے کے قومی دھارے میں شامل ہو جائیں ۔ان سے ماضی کی خوں ریزی کا کوئی حساب نہیں لیا جائے گا۔ ٹی ٹی پی کا ایک ہی جواب تھا کہ وہ پاکستان کے آئین کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس لیے کہ یہ آئین اسلامی نہیں اور ہم لوگ اسلامی نظام کو عملی طور پر نافذکرنے کے لیے میدان عمل میں کفن بردوش نکلے ہیں ۔
ایک اور نکتہ جس پر برادرم افتخار سندھو زور دیتے چلے آئے ہیں کہ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان کا الگ الگ وجود نہیں ہے ،دونوں کی پالیسیاں ایک ہیں، دونوں کا موقف ایک ہے اور دونوں پاکستان دشمنی کے ایجنڈے پر متفق نظر آتے ہیں ۔پاکستان کے ساتھ مخاصمت افغانیوں کی گھوٹی میں پڑی ہے۔ پہلی افغان جنگ میں روس ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اس موقع پر بھی پاکستانیوں نے شادیانے مچائے لیکن پاکستانی رائے عامہ کے ایک طبقے نے اس خدشے کا اظہار ضرور کیا کہ پاکستان میں افغان اسلحہ پھیل جائے گا ۔کلاشنکوف مافیا کا راج قائم ہو جائے گا۔ہیروئن مافیا ہماری رگوں میں سرایت کرجائے گا اور ہم مذہبی طور پر سنگین فرقہ بازی کا شکار ہو جائیں گے ۔ پھر نائن الیون کا واقعہ پیش آیا امریکہ نے آئو دیکھا نہ تائو افغانستان میں فوجیں اتار دیں ۔نیٹو ممالک کو بھی ساتھ لیا اور ایک گھمسان کی جنگ چھڑ گئی ۔امریکہ نے ساری دنیا کے سامنے ایک ہی آفر رکھی ۔یا تو اس کا ساتھ دو ورنہ امریکہ تمھیں دشمن سمجھے گا ۔صدر مشرف نے امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ۔
افتخار سندھو کہتے ہیں کہ اس تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کہ مشرف کا فیصلہ درست تھا یا غلط تھا ۔لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس کے نتائج کیا نکلے ۔پاکستان کہنے کو تو امریکہ کا حلیف تھا اس نے امریکہ کو شمسی ایئر بیس کی سہولت بھی فراہم کی جہاں سے ڈرون طیارے افغانستان کے اندر اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں میزائل گرانے لگے ۔طالبان کے ایک گروہ نے پاکستان کو امریکی حلیف بننے کی سزا دینے کا فیصلہ کیا، یوں پاکستان امریکہ کا بھی نشانہ بنا اور طالبان کا بھی۔ پاکستان کو کچھ سجھائی نہیں دیتا تھا کہ وہ اگر امریکہ کا حلیف ہے تو پھر امریکہ اپنے اتحادی پر حملے کیوں کر رہا ہے ۔امریکہ نے پاکستان کو حقانی گروپ کی سرپرستی کے لیے بھی مورد الزام ٹھہرایا ۔پاکستانی افواج سے ڈو مور کا تقاضا ہونے لگا ۔دوسری طرف پاکستان کے گلی کوچوں میں دہشت گردی کا بازار گرم ہو گیا۔ دہشت گردوں نے جی ایچ کیو کو بھی نشانہ بنایا اور آرمی پبلک سکول پشاور کے پھولوں جیسے بچوں کا بھی خون کیا۔ پاکستان نے ضرب عضب آپریشن سے دہشت گردوں کو شکست سے دوچار کیا مگر پاکستان کو اربوں کھربوں کی معاشی تباہی کا سامنا کرنا پڑا ۔امریکہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو چکاتھا ۔پاکستانی فوج کو دو محاذوں پر لڑنے پر مجبور کردیا گیا اور ایٹمی صلاحیت ہونے کے باوجود پاکستان کی معیشت کھوکھلی ہو کر رہ گئی ۔
افتخار سندھو کا کہنا ہے کہ لوگ چند برس قبل تک ان کے خدشات پر یقین نہیں کرتے تھے لیکن اب حقیقت کا پردہ عیاں ہو چکا ہے اور آنے والے مہینو ں میں طالبان بھی کھل کر ہمارے مقابل صف آرا ہو جائیں گے ۔بھارت پہلے ہی ہمارے خون کا پیاسا ہے ۔ہم دوست دشمن کی تمیز سے عاری ہو چکے ہیں اور ایک ایسے راستے پر چل نکلے ہیں جس کے دونوں طرف گہری کھائی ہے ۔افتخار سندھو درد مندی سے کہتے ہیں کہ کاش ہم ہوش کے ناخن لے لیں اور جذبات کے دھاڑے میں نہ بہتے چلے جائیں۔ بھٹو نے جذبات میں آکر حکمت یار اور سیاف کو پاکستان بلایا ،بھٹو کی بیٹی بے نظیر کے وزیر داخلہ جنرل نصیر اللہ بابر نے کہا کہ طالبان ہمارے بچے ہیں اور وہ ان کے ساتھ ٹینکوں پر بیٹھ کر قندھار پہنچے ۔یہ ساری خوش فہمیاں پانی کے بلبلے کی طرح ہوا ہو گئیں ۔جناب سندھو کے خیالات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ان کے موقف کو غلط ثابت کرنا ممکن نہیں ہو گا۔
٭…٭…٭