سانحہ جڑانوالہ : سانحات کی سیریز
سانحہ جڑانوالہ اپنے پیچھے بہت سے سوال چھوڑ گیا ہے۔ یہ کیوں ہوا، کیسے ہوا؟ اس کی تمام تر تفصیلات پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے توسط سے منظر عام پر آ چکی ہیں۔ دیکھا جائے تو اس وقت پاکستانی معاشرہ ہمہ گیر نوعیت کے شدید ترین سماجی بحران کا شکار ہے۔ اگرچہ پاکستان میں اقلیتوں کو بھی وہ تمام آئینی حقوق حاصل ہیں جو یہاں کی مسلم اکثریت کو دئیے گئے ہیں۔ اسکے باوجود ریاست اور آئین کی طرف سے دئیے گئے اْن کے آئینی حقوق کو پامال کیا جاتا ہے۔ یہ امر ایک مسلم اور جمہوری معاشرے کے ہرگز بھی شایان شان نہیں۔قرآن پاک کی بے حرمتی کے نام پر جڑانوالہ کی کرسچئن آبادی کے چار گرجا گھر اور 88سے زیادہ مکانات نہ صرف نذر آتش کئے گئے بلکہ نذر آتش کرنے سے پہلے انہیں لوٹا بھی گیا۔ بلوہ کرنے والے مقامی لوگ نہیں تھے بلکہ اْن کا تعلق دور دراز کے علاقوں سے تھا۔ سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے اب تک جو فوٹیج سامنے آئی ہیں، مصدقہ ذرائع کے مطابق اْ ن میں غیر مقامی لوگوں کی نشاندہی ہوئی ہے۔ ان میں سے 140افراد کو پکڑ لیا گیا ہے۔ فوٹیج کی مدد سے دیگر کی تلاش بھی جاری ہے۔
یہ ایک سانحہ تھا جو ہْوا اور اختتام پذیر بھی ہو گیا۔ یہ ایسے وقت میں ہوا، جب پاکستان کو زیادہ متحد رہنے کی ضرورت ہے۔ہمیں اس سچ کو ماننا پڑے گا کہ انتہا پسندی، عدم برداشت، غصہ، تعصب اور نفرت جیسے ناسور ہماری معاشرتی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر ایسی خبریں پڑھنے اور سننے کو ملتی ہیں جو بہت ہی خطرناک معاشرتی بحران کی نشاندہی کرتی ہیں۔ رانی پور میں بھی معاشرتی برائی کا ایک بدترین گھنا?نا واقعہ پیش آیا۔ جس نے پورے ملک کو ہی جھنجھوڑ ڈالا۔ ایک سول جج کی اہلیہ کی جانب سے معصوم ملازمہ پر تشدد اسی معاشرتی رجحان کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ سانحہ جڑانوالہ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ اس سانحہ نے بطور قوم ہمارے سر شرم سے جھکا دئیے ہیں۔میں سمجھتا ہوں جس جگہ انصاف کا چراغ گل ہو چکا ہو۔ تحقیقی و تفتیشی ادارے اختیارات کے نشے میں بدمست ہوں۔ سیاسی قیادت محض کٹھ پتلی ہو۔ اعلیٰ ترین عدالتیں محض ربڑ اسٹیمپ ہوں۔ جہاں جزا اور سزا کا تصور ہی ناپیدہو، وہاں سانحہ جڑانوالہ وقوع پذیر نہ ہو تو کیا ہو؟
جہاں اسلام جیسے روشن دین کی من پسند تشریح کی جائے۔ ادھورے فہم پر مبنی خطبات پہ کوئی قدغن نہ ہو۔ وہاں پر اسی طرح کے واقعات وقوع پذیر ہوتے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔نیم خواندہ، اَن پڑھ اور جاہل مبلغوں کی کثرت کی وجہ سے ایسے ’’واقعات‘‘ کو ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
سانحہ جڑانوالہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ ’’واقعات‘‘ کی ایک سیریز ہے۔ اگست 2009ء میں تحصیل گوجرہ میں قرآن پاک کی مبینہ بے حرمتی کے الزام میں چار عورتوں، ایک مرد اور دو بچوں سمیت چھ افراد زندہ جلا دئیے گئے۔ لیکن اس واقعہ کے مرتکب کسی بھی ملزم کو سزا نہیں ہو سکی۔ مارچ 2013ء میں لاہور کے علاقے بادامی باغ کی جوزف کالونی میں قرآن پاک کی بے حرمتی کی افواہ پر ہزاروں مشتعل افراد نے عیسائیوں کی بستی کا محاصرہ کیا۔ سینکڑوں گھر، تین چرچ اور متعدد دکانیں نذرِ آتش کر دیں لیکن ملزمان نامعلوم ہی رہے۔ دسمبر 2021ء میں سیالکوٹ میں ایک فیکٹری کے سری لنکن منیجر پریا یانتھا کمارا کو دردناک انداز میں موت کے گھاٹ اتارا گیا۔
یہ واحد واقعہ تھا جس کے بعد قانون حرکت میں آیا۔ 18اپریل 2022ء کو نامزد 88ملزمان کو سزا سنائی گئی۔ مذکورہ بالا تینوں واقعات میں نہ تو توہین قرآن کا کوئی ثبوت ملا، نہ ہی جھوٹا الزام لگانے والوں کو قرار واقعی سزا دی گئی۔ اگر کوئی شخص توہین مذہب کا مرتکب ہوا تو اْسے بھی کٹہرے میں لانے میں بری طرح ناکامی ہوئی۔ کیا ان واقعات کو یہ کہہ کر سند جواز دی جا سکتی ہے، کہ ہم سے توہین قرآن برداشت نہیں ہوتی۔ کیا ان واقعات کو اس نظریے کی آڑ میں تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے۔انتہا پسندی اور تشدد کا رجحان صرف مذہبی طبقات میں ہی موجود نہیں بلکہ پورا معاشرہ ہی اس رجحان کا شکار ہے۔
یہاں تنازعات پر قتل کی وارداتیں اب معمول کا حصہ ہیں۔ تاہم مذہب کا معاملہ قدرے حساس ہے۔ مذہب کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں کو اگر آپ ہیرو بنائیں گے تو اس کا یہی نتیجہ برآمد ہو گا۔کیا ان واقعات کا تدارک ممکن ہے؟ تو میرا جواب یہ ہے کہ ایسے واقعات کا تدارک کیا جا سکتا ہے۔ اور وہ اس طرح کہ اب قوم میں بہت زیادہ بیداری کی ضرورت ہے۔ اْسے ہر سطح پر جاگنا ہو گا۔ قرآنی تعلیمات بھی یہی ہیں۔ آقا نبی دوجہاں بھی فرما گئے ہیں کہ اقلیتوں کا تحفظ تمھاری ذمہ داری ہے۔ اگرچہ وزیراعظم پاکستان سمیت کئی وفاقی وزراء اور چیف منسٹر پنجاب سمیت صوبہ کی پوری انتظامی مشینری کرسچئن کمیونٹی سے اظہار یک جہتی اور اْن کے دکھ کم کرنے کے لیے جڑانوالہ پہنچی۔ متاثرہ گرجا گھروں کو بحال کر دیا گیا ہے۔ کرسچئن بستی کے متاثرہ مکینوں کو پنجاب حکومت کی جانب سے 20، 20لاکھ کے چیک بھی دے دئیے گئے ہیں۔
پرویز رفیق اقلیتی نشست پر منتخب ہونیوالے سابق رکن صوبائی اسمبلی ہیں۔ آپ کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے۔ جب سے سانحہ جڑانوالہ ہْوا ہے، پرویز رفیق جڑانوالہ میں ہی سکونت اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اشک بار تھے، بولے جڑانوالہ میں بسنے والے مسلمان سانحہ کے روز ہمارے شانہ بشانہ کھڑے رہے لیکن ہمیں بلوائیوں سے نہ بچا سکے۔ پرویز رفیق کا کہنا تھا۔ اب ہمیں مستقبل پر نظر رکھنی ہے کہ پھر کوئی ایسا سانحہ رونما نہ ہو۔ انہوں نے بتایا کہ وہ عنقریب اسلام آباد میں ایک اہم میٹنگ کا انعقاد کر رہے ہیں۔اس میٹنگ میں اقلیتی نمائندوں اور رہنمائوں کے علاوہ مسلم مکتبہ فکر سے بھی اہم رہنما ا ور مذہبی زعماء شرکت کریں گے۔ موضوع ’’ہم آہنگی اور محبت و یگانگت ‘‘ہو گا۔
٭…٭…٭