حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ(۲)
حضرت داتا صاحب کا شمار ان بزرگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے دنیا میں اسلام کا پیغام پہنچایا۔ پانچویں صدی ہجری میں پنجاب میں محمود غزنوی کے متواتر حملوں کی وجہ سے اگرچہ مسلمانوں کی سطوت و جبروت کا سکہ دلوں میں بیٹھ چکا تھا لیکن ان حملوں کی وجہ سے اور کچھ دوسری وجوہات سے غیر مسلموں کا رد عمل مسلمانوں کے خلاف سخت تھا اور ان کے دل اسلام دشمنی کے جذبات سے لبریز تھے۔
ایسے حالات میں اس ملک میں پہنچ کر ان لوگوں کے درمیان اسلام کی تبلیغ کرنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ اس کام کے لیے ایسے شخص کی ضرورت تھی جو عالم وعارف ہو، جس کا یقین اور ایمان پہاڑ کی طرح محکم ہو ، جس میں تاریک روحوں کو نور اسلام سے منور کرنے کا بے پناہ جذبہ ہو جو آہنی عزم کا مالک ہو اور حالات کا غلام نہ ہو، جس کی روحانی قوت ایسی ہو کہ دشمن کو دوست بنا لے اور جسے اپنے بلند مقصد کے حصول کے مقابلے میں اپنے آرام و سکون کی کوئی پرواہ نہ ہو۔ ایسا پیر کامل اور کاملوں کا رہنما جلیل القدر اور عظیم الشان بزرگ حضرت داتا صاحب ہی تھے۔رائے راجو کا سورج بنسی کثری راجپوت رائے خاندان سے تعلق رکھتا تھا خاندانی خصائل کے علاوہ علم نجوم ، ریاضی اور مذہبی علوم میں ایک ممتاز مقام رکھتا تھا اور غیر مسلم اقوام میں بہت اثرو رسوخ کا مالک تھا۔ جب اس کا سامنا حضرت داتا صاحب سے ہوا تو آپ کے ہاتھوں حلقہ بگوش اسلام ہوا اور یہ پہلا ہندو راجپوت تھا جس نے اسلام قبول کیا۔ قبول اسلام کے بعد آپ نے اس کا نام عبد اللہ رکھا اور ظاہری اور باطنی تربیت فرمائی۔اس کے علاوہ سینکڑوں ہندو?ں اور دوسرے غیر مسلموں نے آپ کی تعلیمات سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا۔
جب حضرت خواجہ معین الدین چستی اجمیری رحمۃ اللہ تعالی علیہ کو خواب میں حضور نبی کریم ﷺنے لاہور کے راستے سے ہوتے ہوئے اجمیر شریف میں ڈیرہ لگانے کا کہا تو حضرت خواجہ غریب نواز نے لاہور میں حضور داتا صاحب کے مزار پر قیام کیا اور تقریبا ً چھ ماہ تک ذکر و فکر کرتے رہے اور فیوض و برکات سمیٹتے رہے جب آپ حضرت داتا صاحب سے فیضیاب ہو کر جانے لگے تو آپ نے فرمایا:
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں را پیر کامل کا ملاں را رہنما
داتا صاحب نے اپنی زندگی کے آخری سال لاہور میں گزارے۔ یہ غزنویوں کا دور تھا۔ آ پ نے یہاں اپنا وقت اشاعت اسلام ، تلقین اور تدریس علوم میں صرف کیا اور یہی آپ نے انتقال فرمایا۔