• news

مہنگائی کا ذمہ دار کون

میرا خیال ہے پہلے کریڈٹ لے لیا جائے۔ سانحہ جڑانوالہ کے بارے میں ہم نے پہلے دن ہی کہہ دیا تھا کہ اس کے پیچھے را ہے جس نے لوکل ہاتھوں کو استعمال کرکے اپنا ٹارگٹ حاصل کیا ہے۔ جائے وقوعہ بتا رہی تھی،  یہ وقوعہ حادثاتی نہیں منصوبہ بندی کا مظہر ہے۔ اب آئی جی پنجاب پولیس نے بھی اس کی تصدیق کر دی ہے۔ ہم اس بارے میں کالم میں بھی اظہار کر چکے ہیں۔
 اب بڑھتے ہیں اپنے عنوان کی طرف آج کل ہر طرف مہنگائی کا رونا رویا جا رہا ہے اور جلتی پر بجلی کے بل آسمانی بجلی کی طرح گرے ہیں اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کہیں یہ سول وار کی شکل اختیار نہ کر جائے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ہوشربا مہنگائی کا ذمہ دار کون ہے۔ ہر سیاستدان اپنے مخالف کو ان حالات کا ذمہ دار قرار دیتا ہے۔ کچھ لوگ آمروں کو ذمہ دار ٹھرا رہے ہیں۔ کچھ سیاستدانوں کو جبکہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو۔  
پیپلزپارٹی پہلے مدعا ن لیگ پر ڈالا کرتی تھی اور ن لیگ پیپلزپارٹی کو مورد الزام ٹھراتی تھی۔ پی ڈی ایم کی 16 ماہ کی مشترکہ حکومت کے مزے لوٹنے کے بعد دونوں پی ٹی آئی کو ذمہ دار قرار دیتی ہیں اور پی ٹی آئی پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کو قصور وار ٹھراتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اقتدار میں رہی ہیں تمام کا دعویٰ ہے کہ ان کے دور حکومت میں بہترین کام ہوئے ہیں۔ اگر سب کے دعوے درست تسلیم کر لیے جائیں تو پھر ہانڈی کون چاٹ گیا ہے۔ جبکہ آمروں کی دلیل رہی ہے کہ ان کے ادوار میں ہمیشہ خوشحالی آئی اور عوام مطمئن رہے ہیں۔ پھر آج کے دن کن عالی دماغوں کی وجہ سے دیکھنے پڑ رہے ہیں۔
 پاکستان میں کسی کی جرآت نہیں کہ وہ تسلیم کرے کہ یہ غلطی ہم سے ہوئی جس کاخمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔ اس ملک میں کسی نے آج تک پوچھا ہے کہ آئی پی پیز کے معاہدے کس نے کیے تھے۔ یہ اتنے مجرمانہ اقدام تھے کہ مضحکہ خیز شرائط پر آئی پی پیز کمپنیوں کے ساتھ مہنگی ترین بجلی خریدنے کے معاہدے کیے گئے بلکہ وہ بجلی پیدا کریں یا نہ کریں ریاست ان کی پیدا کردہ بجلی استعمال کرے نہ کرے،  ریاست کو اس کمپنی کی بجلی کی قیمت ادا کرنا پڑے گی اور ان کو فیول بھی حکومت مہیا کرے گی۔ کرائے کے بجلی گھر اور دور دراز علاقوں میں لگائے گئے کول پاور کے پراجیکٹ ہر کسی کے پیچھے خوفناک داستان ہے۔ ایسے معاہدے تو دشمن بھی نہیں کرتا۔ قابض لوگ بھی ایسا نہ کریں جس قسم کے معاہدے ہمارے خدمت گزار اور عوام کا درد دل رکھنے والوں نے بہترین قومی مفاد میں کیے۔ کاش کوئی عوامی درد دل رکھنے والے حکمران یا قومی بقا کا احساس کرنے والے ادارے ہی اس کا نوٹس لے لیتے۔ یہ ظلم نہ ہونے دیتے یا اسے ریورس کروا لیتے تو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ کہا جاتا ہے کہ مختلف ادوار کے خدمت گزاروں نے اس عوامی خدمت کے عوض اربوں کی دیہاڑیاں لگائی ہوئی ہیں۔ جس طرح کسی گھر کے سربراہ کی غلطی کاخمیازہ پورے گھر کو بھگتنا پڑتا ہے اسی طرح کسی بھی حکمران کی غلطی کا خمیازہ پورے ملک اور قوم کو بھگتنا پڑتا ہے جو آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔ 
بدقسمتی یہ ہے کہ آج بھی ہم ماضی کی غلطیوں کو درست کرنے کی بجائے اور بہتری کے اقدامات کرنے کی بجائے عوام کا خون نچوڑنے کے لیے مختلف حربے آزما رہے ہیں لیکن اب آخیر ہو چکی۔ لوگ نکو نک آچکے ہیں ان کی ہمت جواب دے گئی ہے۔ پورے ملک میں لوگ سڑکوں پر دہائیاں دے رہے ہیں۔ پورے ملک میں اس وقت ٹاک آف دی ٹاون بجلی کے بل ہیں۔ تاحال لوگ پرامن احتجاج کر رہے ہیں لیکن اگر جلد مداوا نہ ہوا تو لوگوں کا غیض وغضب کوئی اور شکل بھی اختیار کر سکتا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس وقت قوم لیڈر لیس ہے۔ ڈنڈے کے زور پر لوگوں کے جذبات کو قابو میں نہیں رکھا جا سکتا۔ اس سے قبل کہ دیر ہو جائے کچھ نہ کچھ کرکے عوام کو اطمینان دلوانا چاہیے۔ پاکستان کے عوام کی بدقسمتی دیکھیئے کہ عوام اپنے جگر کا خون دے دے کر جمہوریت کو استحکام دیتے رہے کہ جمہوریت مستحکم ہو گی تو ملک میں خوشحالی آئے گی ان کے حالات بہتر ہوں گے۔ سیاستدان لولی پاپ دیتے رہے کہ اگر دو تین حکومتوں نے اپنی آئینی مدت پوری کر لی تو سیاست اور جمہوریت بڑی مضبوط ہو جائے گی۔ ہم پورے مواقع نہ ملنے کی وجہ سے  ڈیلیور نہیں کر پائے۔ عوام نے جبر کرکے  سیاستدانوں کو وقت پورا کروایا اور بجائے حالات مستحکم ہونے کے آج سیاستدان ملک کو دلدل میں پھنسا کر میٹھی نیند سو گئے ہیں۔ کیا کسی کے پاس کوئی ایجنڈا ہے کہ ان حالات سے ملک کو کس طرح نکالنا ہے۔ آج جمہور مشکل میں ہے اور سیاستدان خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔
٭…٭…٭

ای پیپر-دی نیشن