سید علی گیلانی مرحوم
نجیب الغفور خان
''liberationcellajk@yahoo.com
تحریک آزادی کے سرخیل، بابائے حریت سید علی گیلانی کی دوسری برسی آج منائی جارہی ہے، سید علی گیلانی نے بھارتی پولیس کی حراست کے دوران یکم ستمبر 2021کو سرینگر کے علاقے حیدر پورہ میں واقع اپنی رہائش گاہ پر جام شہادت نوش کیاتھا۔ انہیں ایک دہائی سے زائد عرصے تک مسلسل گھر میں نظر بند رکھا گیا۔ آل پارٹیز حریت کانفرنس نے سید علی گیلانی کی برسی کے موقع پر مقبوضہ کشمیر کے عوام سے یکم ستمبر کو حیدر پورہ سری نگر کی طرف مارچ کی اپیل کی ہے۔جہاں مقامی قبرستان میں یرغمال خاندان کے افراد کے ساتھ جنازے میں صرف قریبی رشتہ داروں اور پڑوسیوں کو اجازت دیکر مرحوم رہنما کو زبردستی سپرد خاک کردیا گیا تھا،ان کی وصیت کے برعکس بھارتی قابض حکام نے انہیں شہداء قبرستان میں دفنانے سے انکار کردیا تھا۔یہ وہ تاریخی دن تھا جب قابض فورسز نے قبرستان کیا رہائش اور آس پاس کے تمام علاقے مکمل طور پر سیل کردیئے تھے۔ جب کہ بھارت نے اگست 2019 میں آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد کشمیریوں کو دبانے کے لیے مقبوضہ کشمیر میں پہلے ہی بڑے پیمانے پر فورسز کی تعیناتی کر رکھی تھی۔سید علی گیلانی نے اپنی پوری زندگی اس نظریے کے لیے نا صرف جدوجہد کی بلکہ کشمیریوں میں بھارت سے آزادی کا جذبہ بھی پیدا کیا، وہ کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے سخت اور پرجوش حامی تھے اور انہوں نے کشمیریوں میں پاکستان کے ساتھ وابستگی کا جذبہ پیدا کرنے کا ایک مضبوط نعرہ دیا تھا۔ ان کا نعرہ ''ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے'' یہ نعرہ اب کشمیریوں اور ہر دل کی آواز بن چکا ہے۔ سید علی شاہ گیلانی 29ستمبر 1929کو شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ کے ایک گاؤں میں پیداہوئے۔ ابتدائی تعلیم سوپور سے حاصل کی۔ سید علی گیلانی نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز 1950میں کیا۔ انہوں نے تحریک آزادی کو زور و شور سے آگے بڑھانے کیلئے 2003میں اپنی تنظیم ''تحریک حریت جموں وکشمیر ''کی بنیاد رکھی۔ انہیں کئی مرتبہ جموں وکشمیر کی قانون ساز اسمبلی کارکن بھی منتخب کیا گیا لیکن جب کشمیری نوجوانوں نے بھارتی غلامی سے آزادی کیلئے مسلح جدوجہد شروع کی تو انہوں نے 1990میں اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔ سید علی گیلانی عارضہ قلب میں مبتلا تھے جبکہ 2007میں انہیں گردوں کے کینسر کی بھی تشخیص ہوئی تھی۔ زندگی کے آخری مرحلے میں انہیں سانس کی د شواریوں کا سامنا تھا،وہ سات دہائیوں تک کشمیرکی تحریک حریت میں سرگرم رہے تھے۔اس کی پاداش میں انھیں کم سے کم 20برس تک بھارت اورکشمیر کی جیلوں میں قید یا نظربند رکھا گیا۔سید علی گیلانی کی وفات سے کشمیریوں نے ایک ایسا رہنما کھو دیا ہے جن کے ساتھ سارے حتیٰ کہ مخالفین بھی محبت رکھتے تھے۔ مرحوم قائد نے ورثاء میں کشمیری قوم کے علاوہ دو بیٹے، بیٹیاں اور پوتے پوتیاں چھوڑے۔ سید علی گیلانی ایک اعلیٰ پائے کے مصنف اور مثالی خطیب تھے۔سید علی گیلانی پاکستان کے کٹر حمایتی تھے جنہوں نے اپنی زندگی کشمیر کاز اور کشمیر پر بھارتی حکمرانی کے خاتمے کے مطالبے کیلئے وقف کر رکھی تھی۔ سید علی گیلانی کو اگرچہ بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑالیکن کشمیر کا زکے ساتھ انکی وابستگی میں کوئی آنچ نہیں آئی۔انکا ماننا تھا کہ جموں وکشمیر پر بھارت کا قبضہ قطعی طور پر غیر منصفانہ اور غیر قانونی ہے اور کشمیریوں کی قسمت کا فیصلہ صرف اور صرف استصواب رائے کے ذریعے ہی کیا جاسکتاہے۔ سید علی گیلانی دل کی گہرائیوں سے پاکستان کے ساتھ محبت رکھتے تھے۔ وہ ریاست جموں وکشمیر کی بھارت سے آزادی اوراس کا پاکستان سے الحاق چاہتے تھے۔سید علی شاہ گیلانی نے کشمیری عوام کوحق خودارادیت دلانے کے لیے پوری زندگی دلیرانہ جدوجہد کی۔انھیں قابض بھارتی حکام نے جبروتشدد کا نشانہ بنایا لیکن وہ پوری زندگی آہنی عزم کے ساتھ کشمیر کی آزادی کے لیے جدوجہد کرتے رہے ۔سیدعلی گیلانی کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت کے حصول کے لیے عشروں پرمحیط مزاحمتی تحریک اورطویل جدوجہد کی علامت ہیں۔حکومت پاکستان نے انہیں ملک کے سب سے اعلیٰ سول ایوارڈ نشان امتیاز سے نوازا تھا۔ سیدعلی گیلانی کا''ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے''کا نعرہ آج پوری دنیا میں گونج رہا ہے، پوری دنیا میں سید علی گیلانی کو ان کے یوم شہادت پر زبردست الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا جارہا ہے۔کشمیریوں کا سید علی گیلانی کے لئے بابائے حریت کا خطاب ان کی طویل جدوجہد کا اعتراف ہے۔ قائد تحریک سید علی شاہ گیلانی ایک فرد نہیں تحریک اور مشن کا نام ہے جس کا نعرہ کشمیر بنے گا پاکستان ہے۔ وہ کشمیرکی آزادی کی تحریک میں مزاحمت کا استعارہ تھے۔ ۔ انھوں نے آخری سانس تک کشمیریوں کے حقوق کی جنگ لڑی۔ سید علی گیلانی کی جدوجہد انڈین قبضے کے خلاف ناقابل تسخیر عزم کی علامت ہے۔ سید علی گیلانی تحریک آزادی کشمیر کے روح رواں تھے، سید علی گیلانی کی زندگی بھر کی قربانیاں اور مسلسل جدوجہد کشمیریوں کے بھارتی قبضے کے خلاف ناقابل تسخیر عزم کی علامت ہے۔ ان کا خواب اور مشن تب تک زندہ رہے گا جب تک مقبوضہ کشمیرکے لوگ اپنے حق خود ارادیت کو حاصل نہیں کر لیتے۔