مرحوم کی کشمیر کے بطل حریت مجید نظامی سے محبت
جی این بھٹ
سید علی شاہ گیلانی مقبوضہ کشمیر میں تحریک حریت کی وہ توانا آواز تھے جو کئی دہائیوں سے ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کے جذبے اوریقین کو وادی کشمیر کے چپے چپے میں پھیلاتے رہے۔ جماعت اسلامی کے قائد اور بعدازاں جماعت سے فراغت کے بعد وہ حریت کانفرنس میں اپنے دھڑے کے بے باک ترجمان رہے انہیں مسلسل ان کی بزرگ اور بیماری کے باوجود بھارت کی طرف سے جیل میں یا گھر میں نظر بند رکھ کر ان کی آواز دبانے کی کوشش کی جاتی رہی مگر وہ مرد دانا کبھی بھی کسی حال میں بھی خاموش نہیں رہے انہوں نے زندگی کے تمام ماہ وسال کشمیر کی آزادی کے لئے جنگ لڑتے ہوئے صرف کئے انہیں تمام کشمیر میں ایک بزرگ قائد کی حیثیت سے احترام حاصل تھا کشمیر خواہ خودمختاری کا حامی ہو یا الحاق کا سیاسی اختلافات سے ہٹ کر ان کی سیاسی سوجھ بوجھ کا قاتل رہا، حریت کانفرنس کے تینوں دھڑے یٰسین ملک گروپ، میرواعظ گروپ اور گیلانی گروپ کے درمیان جو اتحاد و اتحاد آج نظر آتا ہے اس میں سید علی گیلانی فہم و فراست اور معتدل مزاج کا بہت ہاتھ ہے۔ ان کی پاکستان سے محبت اور عقیدت کی وجہ سے نوائے وقت کے صفحات ہمیشہ جناب مجید نظامی کے حکم کے تحت ان کے پیغام کو عام کرنے کے لئے پیش پیش رہے۔ خود سید علی گیلانی بھی ہمیشہ اپنی آواز پاکستانیوں تک پہنچانے کے لئے نوائے وقت کا ہی سہارا لیتے تھے۔ انہیں آبروئے صحافت مجید نظامی سے نہایت محبت و عقیدت تھی۔ وہ نظامی صاحب کو تحریک آزادی کشمیر کا پشت بان قرار دیتے تھے۔ انہوں نے ہمیشہ تحریک کے لئے نوائے وقت کے بھرپور کردار کو ناصرف سراہا بلکہ ہمیشہ اسے اپنی خصوصی محبت و شفقت سے بھی نوازا۔ وہ جانتے تھے کہ اس دور میں نظریات کی آبیاری کرنا صرف مجید نظامی کا ہی شیوہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک نوائے وقت انہی کے نقش قدم پر چل رہا ہے۔ موجود ایڈیٹر انچیف نوائے وقت رمیزہ نظامی بھی اس مشن کو آگے لے کر چل رہی ہیں جو مجید نظامی اور علی گیلانی کا مشن تھا۔’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کایہ سلسلہ آزادی کشمیر تک جاری ہے اور رہے گا۔ زندگی کے آخری ایام انہوں نے شدید بیماری کی حالت میں گھر میں نظر بندی کے دوران بسر کئے اور یکم ستمبر2021ء کو اپنی رہائش گاہ حیدر پورہ میں انتقال کر گئے۔ ان کی وفات کی خبر بھارتی حکومت نے دبائے رکھی اور رات کے اندھیرے میں نہایت خاموشی کیساتھ چند رشتہ داروں کو ان کی تدفین کی اجازت دی۔ سید علی گیلانی مرحوم کوکشمیر کی تاریخ میں ایک بے باک رہنما اور کشمیری کے بے مثال خطیب کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ان کی زندگی بیشتر حصہ بھارتی جیلوں میں گزرا۔ انہوں نے اپنی حیات پر کتاب لکھی جو ’’روداد قفس‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔2021ء میں بوقت وفات ان کی عمر92 سال تھی یوں وہ تحریک آزادی کشمیر کے ہر لمحے کے گواہ تھے۔ وہ سخت گیر مؤقف رکھنے والے ایک نرم دل انسان تھے سیاست میں تمام تر نظریاتی اختلاف کے باوجود مستقل مزاجی سے اپنے اصولوں قائم رہے۔ یکم ستمبر2021ء کو ان کے یوم وفات پر پاکستان میں یوم سوگ منایا گیا۔ نوائے وقت نے خاص اشاعت میں ان کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا۔ آج یکم ستمبر2023ء کو ان کی دوسری برسی پر کشمیر پاکستان اور آزاد کشمیر میں ان کی یاد میں تعزیتی ریفرنس اور سیمینار کے علاوہ جلسے جلوس اور ریلیاں نکال کر لوگ ان کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کریں گے۔اس موقع پرنوائے وقت نے خصوصی اشاعت کا اہتمام کیاہے۔