نیب ترامیم کیس، صدارتی اختیار جیسی معافیاں دی جا رہی ہیں: چیف جسٹس،زور لگا کر غلطی ڈھونڈی جا رہی: جسٹس منصور
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) نیب ترامیم کیس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ صدارتی معافی کی طرح نیب سے معافیاں دی جا رہی ہیں، نیب قانون کا کاروباری شخصیات کے خلاف غلط استعمال کیا گیا، کسی جرم کی نوعیت تبدیل کرنا درست نہیں، کرپشن معاشرے اور عوام کے لیے نقصان دہ ہے۔ ایف بی آر کو ملنے والی معلومات بطور ثبوت استعمال نہیں ہوسکتیں۔ جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ زور لگا لگا کر نیب ترامیم میں غلطی ڈھونڈی جارہی ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ خواجہ حارث صاحب اجازت ہو تو مخدوم علی خان سے ایک بات پوچھ لوں؟ کل ہم نے ترمیمی قانون میں ایک اور چیز دیکھی، باہمی قانونی تعاون کے تحت حاصل شواہد کی حیثیت ختم کر دی گئی ہے، اب نیب کو خود وہاں سروسز لینا ہوں گی جو مہنگی پڑیں گی، آپ نے کل کہا تھا کہ باہمی قانونی تعاون کے علاوہ بھی بیرون ملک سے جائیدادوں کی رپورٹ آئی ہے، قانون میں تو اس ذریعے سے حاصل شواہد قابل قبول ہی نہیں۔ عدالتی کارروائی کے دوران نیب ترامیم کے بعد ریفرنسز واپس ہونے سے متعلق رپورٹ عدالت میں جمع کرا دی گئی، رواں سال 30 اگست تک 12 ریفرنسز نیب عدالتوں سے منتقل ہوئے ہیں۔ زرداری کے خلاف پارک لین ریفرنس احتساب عدالت نے ترامیم کے بعد واپس کر دیا۔ ترامیم سے فائدہ اٹھانے والوں میں زرداری کے علاوہ شاہد خاقان عباسی بھی شامل ہیں۔ خورشید انور جمالی، منظور قادر کاکا اور انور مجید کے نیب مقدمات بھی منتقل کیے گئے۔ جعلی اکاؤنٹس کیس کے مرکزی ملزم حسین لوائی کا کیس بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر ہو گیا۔ اومنی گروپ کے عبدالغنی مجید کے خلاف نیب کیس بھی احتساب عدالت سے واپس ہو گئے۔ رواں سال مجموعی طور پر 22 مقدمات احتساب عدالتوں سے واپس ہوئے۔ نیب ترامیم کی روشنی میں 25 مقدمات دیگر فورمز کو منتقل کر دیے گئے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایف بی آر کے بیرونِ ملک سے حاصل کردہ ریکارڈ عدالت میں قابلِ قبول شواہد کے طور پر پیش نہیں کیے جا سکتے، کیا آئینِ پاکستان میں شکایت کنندہ کے حقوق درج ہیں؟ نیب ترامیم کے بعد بین الاقوامی قانونی مدد کے ذریعے ملنے والے شواہد قابل قبول نہیں رہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سوئس مقدمات تو زائد المعیاد ہونے کی وجہ سے ختم ہوئے تھے عدم شواہد پر نہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا قانون میں ملزم کے ساتھ شکایت کنندہ کے حقوق بھی ہیں؟ ہمارے کرمنل جسٹس سسٹم میں بھی سزا کی شرح 70 فیصد سے کم ہے، ان میں سے بھی کئی مقدمات اوپر جا کر آپس میں طے ہو جاتے ہیں، ہم یہ ڈیٹا دیکھ رہے ہوتے ہیں جو تشویش کی بات ہے، قتل کے مقدمات میں 30 سے 40 فیصد لوگوں کو انصاف نہیں ملتا، ریاست کا بنیادی کام ہی لوگوں کو انصاف دینا ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ قانون میں بیرونِ ملک سے قانونی معاونت کی گنجائش کتنی ہے؟، خواجہ حارث نے جواب دیا کہ پاکستانی قانون میں بیرونِ ملک سے حاصل قانونی معاونت کی زیادہ اہمیت نہیں رکھی گئی۔چیف جسٹس نے کہا کہ مئی 2023ئ سے پہلے نیب ریفرنسز کا واپس ہونا سنجیدہ معاملہ ہے، ہمارے پاس نیب ریفرنس واپس ہونے سے متعلق تفصیلات پر مبنی فہرست ہے، بات یہ ہے کہ ہم نے آج (…………) کیس ختم کرنا ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اٹارنی جنرل نے کہا ہے کہ پیر کو کچھ وقت لیں گے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ پیر تک وقت نہیں، تحریری طور پر معروضات دے دیں، ہم دیکھ لیں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ حال ہی میں سندھ سے نیب کے مقدمے میں ملزم پلی بارگین پر آمادہ ہوا ہے، نیب نے ملزم کے آمادہ ہونے پر پلی بارگین کی رقم بڑھا دی جو کہ مضحکہ خیز عمل ہے، قانون کی کون سی شق ہے جو کہتی ہے کہ انصاف کے ترازو میں توازن برقرار ہونا چاہیے؟جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ کرمنل لاء تو کہتا ہے کہ ملزم قانون کا فیورٹ چائلڈ ہوتا ہے، کسی کے بنیادی حقوق متاثر ہوں گے تو وہ عدالت آئے گا۔خواجہ حارث نے کہا کہ نیب کے مقدمات میں پبلک آفس ہولڈرز کے احتساب کے عمل میں رکاوٹ سے عوام کے بنیادی حقوق متاثر ہوتے ہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کرمنل جسٹس سسٹم کو شفاف ہونا چاہیے، درخواست گزار کا کیس یہ ہے کہ نیب ترامیم سے ملزمان کو تحفظ دیا گیا ہے، نیب کے زیرِ حراست ملزم کو دباؤ میں لا کر پلی بارگین کرنے کا تاثر موجود ہے، خواجہ حارث نے کہا کہ یہ درست ہے، کچھ مثالیں موجود ہیں جن میں دباؤ ڈال کر پلی بارگین کی گئی۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ترامیم کے بعد پلی بارگین کے تحت اقساط میں وصول کی گئی رقم بھی واپس کرنا ہو گی، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا مؤقف ہے کہ نیب ترامیم سے پلی بارگین کے بہت سارے کیسز کو دائرہ اختیار سے نکال دیا گیا ہے؟وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ 50 کروڑ سے کم مالیت کی پلی بارگین اب نیب کے قانون میں شامل نہیں، آمدن سے زیادہ اثاثہ جات کی پلی بارگین کو بھی قانون سے خارج کر دیا گیا ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نیب ترامیم سے جو کیس ختم ہو گا وہ کسی دوسرے فورم پر چلا جائے گا، وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ نیب قانون کے سوا کسی قانون میں پلی بارگین کی شق موجود نہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ایک منٹ کے لیے مان لیتے ہیں کہ ارکانِ پارلیمنٹ نے خود کو فائدہ پہنچانے کے لیے ترامیم کیں، کیا ہم نیب ترامیم کو کالعدم قرار دے دیں؟ اگر ہم کالعدم قرار بھی دیں تو کس قانون کے تحت نیب ترامیم کو کالعدم قرار دیں؟وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت آرٹیکل 9 کے تحت نیب ترامیم کو کالعدم قرار دے سکتی ہے، ان ترامیم سے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا معاملہ نہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ خواجہ حارث صاحب آپ مانیں کہ نیب کا غلط استعمال ہوتا رہا ہے، کرپشن معاشرے کو نقصان پہنچاتی ہے، نیب ترامیم میں جرم کو ختم کرنا قانونی ہے یا غیر قانونی۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جواب یہ ہے کہ آئندہ پارلیمنٹ آئے گی تو نیب ترامیم پر دوبارہ غور کر لے گی، اگر پارلیمنٹرینز نے اپنے فائدے کے لیے قانون بنایا ہے تو آئندہ عوام ان کو منتخب نہیں کریں گے، انتخابات سر پر ہیں اور جمہوریت آئین کی بنیاد ہے، عدلیہ اور پارلیمنٹ کو اپنے اپنے طریقے سے چلنے دیں ورنہ جمہوری نظام نہیں چل سکے گا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ نیب قانون کا کاروباری شخصیات کے خلاف غلط استعمال کیا گیا، میرے پاس ایسے کاروباری شخصیات کے نام بھی موجود ہیں جنہیں نقصان پہنچایا گیا، ایسے نہیں ہونا چاہیے کہ کسی اکاؤٹنٹ کو بٹھا کر 10 روپے کی غلطی نکالی جائے، قانون کے مطابق کاروبار کرنے والی شخصیات کے خلاف نیب قانون کا غلط استعمال کیا گیا، کسی جرم کی نوعیت تبدیل کرنا درست نہیں، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ایسے لگ رہا ہے کہ زور لگا لگا کر تھک گئے کہ نیب ترامیم میں غلطی نکلے لیکن نہیں مل رہی، کچھ چیزوں کو فطرت پر بھی چھوڑیں، الیکشن سر پر ہیں، عوام کو فیصلہ کرنے دیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیس ایک چٹھی پر بھی چلا سکتے تھے لیکن بنیادی حقوق کا معاملہ تھا اس لیے سن رہے ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پارلیمنٹیرین عوام کا امین ہوتا ہے، سب سے بڑی خلاف ورزی تو یہ ہے کہ کیسے ایک شخص اپنی مرضی سے پارلیمنٹ چھوڑ کر چلا گیا۔وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ یہ سیاسی فیصلہ ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ میں بیٹھنا ہے یا چھوڑنا ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پارلیمنٹ کا فورم موجود تھا، کیسے اپنی حلقے کی نمائندگی چھوڑ دی؟ درخواست گزار کی نیک نیتی کیا ہے؟چیف جسٹس نے کہا کہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر تو ایک خط پربھی نوٹس لے سکتے ہیں۔جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ وہ خط کس نے بھیجا ہے، پارلیمنٹ کا فورم چھوڑ کر عدالت آنے سے نیک نیتی کا سوال تو آئے گا، آپ نے پارلیمنٹ میں ہی ان باتوں پر لڑنا تھا جسے آپ چھوڑ کر چلے گئے، آپ نے نشست سے استعفیٰ دینا تھا تو اسے کسی اور کے لیے خالی کرتے۔وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ انہوں نے نشست سے استعفیٰ دیا تھا جو منظور نہیں کیا گیا، اثاثوں سے متعلق شق بھی نیب کے سیکشن 9 میں ہے، سیکشن 9 میں اس کی تعریف کرپشن کے طور پر کی گئی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ماضی میں کسی اثاثے کی مالیت کیا تھی یہ قیاس آرائی ہی ہو سکتی ہے، کوئی پراپرٹی ڈیلر ہی کہہ سکتا ہے کہ یہ جائیداد کچھ برس قبل کتنی مالیت کی تھی، نیب کچھ تو کنکریٹ شواہد لایا کرے کہ اثاثوں کی اصل مالیت سامنے نہیں آئی، صدارتی معافی کی طرح نیب سے معافیاں دی جا رہی ہیں، بد نیت لوگوں کے ہاتھ میں اتھارٹی دی جاتی رہی، کئی لوگوں کے پاس منشیات اور دیگر ذرائع سے حاصل داغ دار پیسہ موجود ہے، داغ دار پیسے کا تحفظ کر کے سسٹم میں بہت سے لوگوں کو بچایا جاتا ہے، ریاست کی ذمے داری ہے کہ منصفانہ اور شفاف معاشرہ قائم کرے، ریاست نے یقینی بنانا ہے کہ مجرمان آزاد نہ گھومیں، معاشی مواقع چھیننے کی وجہ سے لوگ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں، معیشت کے شعبہ کو سیاسی طاقتوروں کے لیے مختص کر دیا گیا ہے، جسٹس منصور علی شاہ بنیادی حقوق کے براہِ راست تعلق کا سوال اٹھا رہے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ بہت سے بنیادی حقوق نیب ترامیم سے متاثر ہو رہے ہیں، لوگ اپنے نمائندے کسی مقصد سے منتخب کرتے ہیں اور وہ مقصد آئین میں درج ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ کیا یہ نیب کو ترامیم کے ذریعے کیپچر نہیں کر لیا گیا؟ کیا جو نیب کا ملزم ہے وہ خود قانون بنائے گا؟ کیا نیب کا ملزم خود قانون بنا کر بتائے گا کہ اس کے خلاف کارروائی کیسے ریگولیٹ کی جائے؟ کیا ذاتی فائدے کے لیے بنائے گئے قانون کو کالعدم کر سکتے ہیں؟جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ پارلیمان اگر اپنے فائدے کے لیے قانون بنا بھی لے تو عدالت کیا کر سکتی ہے؟، ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے عدالت سے پھر استدعا کی کہ اٹارنی جنرل دلائل دینا چاہتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ پھر کیس منگل تک ملتوی کریں گے کیونکہ پیر کو کراچی والوں کا آنا مشکل ہوتا ہے، ہم نے آمدن سے زائد اثاثوں، اختیارات کے غلط استعمال اور پلی بارگین سے متعلق ترامیم کو دیکھنا ہے، دنیا بھر میں ڈائریکٹ شواہد استعمال ہوتے ہیں کہ آپ کی یہ ٹرانزیکشن غلط ہے، آڈیٹر جنرل کے ادارے کو مضبوط کیا جائے تو وہ ان معاملات کو خود دیکھ سکتا ہے، ماضی میں نیب قانون کا غلط استعمال کیا جاتا رہا، قانون سازی کے ذریعے سرکاری افسران کو نیب سے تحفظ فراہم کیا گیا، آڈیٹر جنرل آف پاکستان اہم آئینی ادارہ ہے، مضبوط آڈیٹر جنرل آفس صوبوں کے اکاؤنٹس کو بھی دیکھ سکتا ہے، نیب ترامیم سے براہِ راست بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوئی، نیب ترامیم سے بلا واسطہ حقوق متاثر ہونے کا پہلو ضرور ہے، ہمیں تراش کر بنیادی حقوق کا تعلق دیکھنا ہو گا۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس کی سماعت 5 ستمبر تک ملتوی کر دی۔علاوہ ازیں 29 اگست کی سماعت کے تحریری حکم میں عدالت عظمیٰ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ معطل ہے، بینچ میں اس سٹیج پر تبدیلی ضروری نہیں۔8 صفحات کے حکمنامے میں جسٹس منصور علی شاہ کا 4 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ بھی شامل ہے۔ عدالت عظمیٰ نے تحریری حکمنامہ میں کہا ہے کہ8 رکنی بنچ نے 13 اپریل اور دو مئی کے آرڈرز معطل کیے، بینچ میں اس سٹیج پر تبدیلی ضروری نہیں، حکومت کی جانب سے ان آرڈرز کو واپس لینے یا تبدیل کرنے کی درخواست نہیں کی گئی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن کی رائے سے اتفاق نہیں کرتا،8رکنی بنچ نے 13 اپریل کو سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر حکم امتناعی دیا، 4 ماہ سے زائد گزرنے کے باوجود پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس مقرر نہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ اختلافی نوٹ کے مطابق سپریم کورٹ اس وقت حکم امتناعی کی غیر یقینی صورتحال میں کام کر رہی ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر فوری فیصلہ دیا جائے تاکہ عدالت قانون کے تحت کام کرسکے، اور جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ زیرالتوا ہے سماعت روک دی جائے، اور کیس جاری رکھنے کی صورت میں سماعت کیلئے فل کورٹ تشکیل دی جائے، ملٹری کورٹس کیس میں بھی میرا مؤقف یہی تھا کہ فل کورٹ کیس سنے۔ جسٹس منصور علی شاہ کے اختلافی نوٹ کے مطابق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق فیصلہ نہایت اہم ہوگا، ایکٹ کے حق میں فیصلہ آیا تو نیب ترامیم کیس قانون کی نظر میں غیرموثر ہو جائے گا، ایکٹ پر فیصلہ نہ ہونے تک خطرے کی تلوار لٹکتی رہے گی، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ بننے کے بعد سپریم کورٹ رولز تبدیل ہوچکے ہیں، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کا فیصلہ قانونی طریقے سے چلانے کیلئے ناگزیر ہے۔