معاشی استحکام کیلئے آئی ایم ایف سے رابطہ میں ہیں‘ پاکستان کی حمایت کرتے رہیں گے‘ امریکہ۔
کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں کی دوستی بھی بری ہوتی ہے اور دشمنی بھی۔ کہنے کو تو امریکہ پاکستان کا دوست ہے مگر اسکی طرف سے اپنے اس مخلص دوست پاکستان کیلئے آج تک خیر تو دور کی بات، کبھی ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا بھی نہیں آیا۔ 71ء میں پاک بھارت جنگ میں بھارت نے پاکستان کو دو لخت کر دیا‘ مگر پاکستان کی مدد کرنے والا امریکی بحری بیڑہ آج تک پاکستان نہیں پہنچ پایا۔ یا وہ راستہ بھٹک گیا یا پھر برمودا ٹرائی اینگل کی نذر ہو گیا۔ پاکستانی موقف کی حمایت میں کشمیر کے معاملے میں بھی امریکہ بھارت پر پھسپھسا سا دبائوڈالتا ہے۔ نائن الیون کے بعد شروع کی گئی اپنی دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کو ’’ڈانٹ‘‘ کر اپنا فرنٹ لائن اتحادی بنایا اورپھر اپنی یہ جنگ اسکے گلے میں ڈال کر اسے دہشت گردی کی آگ میں جھلستا چھوڑ گیا۔ اس جنگ کا خمیازہ پاکستان آج تک بھگت رہا ہے۔امریکی دوستی پر پاکستان یہی کہہ سکتا ہے:
دوستی کی تم نے‘ دشمن سے۔ عجب تم دوست ہو
میں تمہاری دوستی میں مہرباں مارا گیا۔
آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے قرض پروگرام بحالی میں بھی امریکہ نے ’’اہم کردار‘‘ ادا کیا اور اب بھی کر رہا ہے‘ جس کا نتیجہ بدترین مہنگائی کی صورت میں پوری قوم بھگت رہی ہے۔ یہ کون نہیں جانتا کہ اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی مالیاتی ادارے امریکہ کی باندی کا کردار ادا کرتے ہیں‘ وہ جسے جو ڈکٹیشن دیتا ہے‘ وہ وہی کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اب امریکہ آئی ایم ایف سے پاکستان کی حمایت کرنے کا کہہ رہا ہے‘ اللہ خیر ہی کرے۔ پاکستان امریکہ کیلئے اب تک جتنی قربانیاں دے چکا ہے‘ اسے تو اپنے اس دوست کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ لیکن وہ ایسا ہرگز نہیں کریگا کیونکہ بادی النظر میں اس کا یہی تو ایجنڈا ہے کہ پاکستان کو معاشی طور پر اتنا کرزور کر دیا جائے کہ وہ خود ہی اپنے ایٹمی اثاثے رول بیک کرنے پر مجبور ہو جائے۔ اس وقت بجلی کے بھاری بلوں اور پٹرولیم مصنوعات کے ہوشربا نرخوں نے عوام کو ادھ موا ٔکردیا ہے‘۔ عوام احتجاج کیلئے سڑکوں پر نکل آئے ہیں‘ مگر حکمرانوں کی طرف سے صاف کہہ دیا گیا ہے کہ وہ نہ بلوں پر سبسڈی دے سکتے ہیں اور نہ ان بلوں میں موجود ناجائز ٹیکسز ختم کر سکتے ہیں‘ اس کیلئے انہیں آئی ایم ایف سے اجازت لینا ہوگی۔ اس بیان کے بعد تو یہ تاثر پختہ ہو چکا ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دیا گیا ہے۔
…٭…
دوسری جانب ایشیائی ترقیاتی بنک نے اپنا فرمان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کیلئے پاکستان سے تعاون جاری رکھیں گے۔ کمال ہے‘ اس وقت پاکستان کی جو سنگین معاشی صورتحال ہے‘ اس بنک کو پاکستان کی مالی امداد کرنی چاہیے ‘ جبکہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کیلئے تعاون کا یقین دلا رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے در آنے والی بیماریوں کا علاج تو پاکستان دوا دارو سے خود ہی کرلے گا‘ اس وقت تو اسے مالی معاونت کی ضرورت ہے جو اس بنک کی طرف کی جانی چاہیے۔ رہی بات موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث آنیوالے سیلاب اور بارشوں کی تو پاکستانی عوام اسکے عادی ہو چکے ہیں۔ ہماری امریکہ سے گزارش ہے کہ وہ آئی ایم ایف کو آزادانہ کام کرنے دے اور پاکستان کی حمایت کرنا چھوڑ دے‘ کیونکہ‘ اگر آئی ایم ایف پاکستان کیلئے تھوڑا سا کوئی نرم گوشہ رکھتا بھی ہوگا تو امریکی حمایت سے پاکستان کو اس سے بھی ہاتھ دھونے پڑ سکتے ہیں۔
٭…٭…٭
ساری بند انڈسٹری 30 دن میں کھول دوں گا‘ نگران وزیر تجارت۔
ملک کی ساری بند انڈسٹریاں کھولنے کیلئے نگران وزیر تجارت نے 30 دن بہت زیادہ مانگ لئے‘ ان کا تالہ کھولنے کیلئے ایک ہی دن کافی ہے‘ اصل کام تو ان بند انڈسٹریوں کو چلانا اور ان سے پیداوار کا حصول ہے جس کیلئے بجلی‘ گیس‘ پٹرول جیسی چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے جو ملک میں مہنگے ترین ہوتے جا رہے ہیں۔ اس وقت جو پیداوار ان تینوں سے ہو رہی ہے‘ انکی خرید عوام کی دسترس سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔ اگر وزیر موصوف کی 30 دن سے مراد بند انڈسٹریوں کو چلانا ہے تو پھر بھی انکے اس دعوے پر یقین کرنا مشکل ہے کیونکہ ایسے کئی دعوے ماضی میں بھی کئے جاتے رہے مگر ان سب کا نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ہی نکلا۔ ویسے بھی حکومتوں کی جانب سے عوام کو جتنے لالی پاپ دیئے جا چکے ہیں‘ لگتا ہے مزید لالی پاپ دیئے گئے تو عوام کو شوگر کا مرض لاحق ہو جائے گا۔ دور جانے کی ضرورت نہیں‘ ابھی حال ہی میں سابق وزیراعظم شہبازشریف صاحب نے اپنے کپڑے بیچ کر قوم کو ریلیف دینے کا وعدہ کیا تھا‘ نہ انکے کپڑے بکے نہ عوام کو ریلیف ملا۔ کچھ اسی قسم کا دعویٰ اب وزیر تجارت بھی کر رہے ہیں۔ اگر وہ واقعی 30 دن میں تمام بند صنعتیں کھول کر ان سے پیداوار حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو انہیں ملکی حالت پہ پہلے رحم کیوں نہیں آیا۔ اگر وہ سابقہ حکومتوں کو اپنا یہ فارمولا دے دیتے تو آج مہنگائی کی یہ صورتحال نہ ہوتی اور عوام بھی سکھ کا سانس لے رہے ہوتے۔ مگر کیا کیجئے! ہر کوئی اقتدار میں آکر ہی اپنا فارمولا آزمانا چاہتا ہے تاکہ عوام کو بے وقوف بنا کر اقتدار کے مزے لوٹ سکے۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ اس وقت پاکستان کو جس نہج پر پہنچا دیا گیا ہے‘ 30 دن تو کیا‘ 30 سال میں بھی وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ جس دن ہمارے کرتا دھرتائوں نے نیک نیتی سے اس ملک کیلئے کام کرنا شروع کر دیا‘ یقین جانیئے‘ پھر 30 دن نہیں‘ چند دنوں میں خوشحالی اور ترقی کی راہیں کھلتی نظر آنے لگیں گی۔
٭…٭…٭
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئٹرس نے کہا ہے کہ جوہری ٹیکنالوجی کے حامل ملک تجربات روکیں‘ عالمی معاہدے کی توثیق کریں۔
اقوام متحدہ دنیا کا واحد طاقتور ادارہ ہے جو کسی سے کچھ بھی کروا سکتا ہے۔ اگر کوئی ملک اسکے چارٹر کی خلاف ورزی کرے تو اس کیخلاف فوری ایکشن لینے کا مجاز ہے مگر اس ادارے کی طاقت صرف کمزور ملکوں کیلئے رہ گئی ہے جن کا بازو مروڑ کر بھی یہ اپنے چارٹر پر عملدرآمد کرالیتا ہے مگر امریکہ جیسے ملکوں کے آگے اسکی بالکل نہیں چلتی اور مقبوضہ کشمیر اور فلسطین کے معاملے میں بھی یہ بے بس نظر آتا ہے۔ بے شک جوہری ٹیکنالوجی کو مزید پھیلنے سے روکنا ضروری ہے کیونکہ اس وقت جن ممالک کے پاس خطرناک ایٹمی ہتھیار موجود ہیں‘ انکی موجودگی سے یہ کرۂ ارض بالکل غیرمحفوظ ہو کر رہ گیا ہے۔ اگر خدانخواستہ کسی دو ملکوں کی جنگ کے درمیان ان ہتھیاروں کے استعمال کی نوبت آگئی تو اس سے صرف وہی متاثر نہیں ہونگے‘ بلکہ انکے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہوں گے۔ ہیروشیما اور ناگا ساکی پر گرائے جانے والے ایٹم بم آج کے ایٹم بموں کے مقابلے میں پٹاخے تصور کئے جاتے ہیں‘ ان پٹاخہ بموں کے بداثرات جاپانی قوم آج بھی بھگت رہی ہے۔ اگر آج کے جدید ایٹم بموں میں سے ایک یا دو چلا دیئے گئے تو اس کرہ ارض پر سوائے راکھ کے کچھ نہیں بچے گا۔
اقوام متحدہ کو ان بڑے ممالک پر زور دینا چاہیے جو ایٹمی ٹیکنالوجی کے پھیلائومیں اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور سی ٹی بی ٹی جیسے معاہدے پر دستخط کرنا بھی گوارا نہیں کررہے اور تواتر کے ساتھ ایٹمی تجربات کرنے میں مصروف ہیں۔ ان میں بھارت اور امریکہ سرفہرست ہیں۔ امریکہ تو اپنے فطری اتحادی بھارت کو ایٹمی اسلحہ فراہم کرنے کے معاہدے اب بھی دھڑلے سے کر رہا ہے اور اسے اسلحہ بھی فراہم کر رہا ہے جس سے خطہ میں طاقت کا توازن بگڑتا نظر آرہا ہے۔ پاکستان کو مجبوراً اپنے دفاع کیلئے اس اسلحہ کی دوڑ میں شامل ہونا پڑ رہا ہے کیونکہ بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے۔ اس نے 98ء میں ایٹمی دھماکے کرتے ہی پاکستان کو دھمکیاں دینا شروع کر دی تھیں۔ اگر پاکستان اپنے دفاع میں ایٹمی دھماکے نہ کرتا تو وہ اب تک اسے ہڑپ کر چکا ہوتا۔ انتونیو گوئٹرس کو شاید اپنی طاقت کا اندازہ نہیں ہے‘ اگر ہے تو انہیں ایٹمی تجربات سے ہی نہیں روکنا چاہیے‘ بلکہ ایٹمی اسلحہ کی تخفیف پر زور دینا چاہیے‘ جس پر امریکہ بھی کئی بار زور دے چکا ہے مگر خود اس طرف نہیں آتا۔
٭…٭…٭