احتساب اور مہنگائی
بلا شک و شبہ پوری دنیا میں حکومتیں بنتی بھی ہیں اور ختم بھی ہوتی ہیں مگر ان کا مقصدِ واحد صرف اور صرف عوام کی فلاح و بہبود ہوتا ہے۔ ہم چونکہ مسلمان ہیں اس لیے ہمارے لیے خلافتِ راشدہ کا دور رول ماڈل ہونا چاہیے۔ اس عظیم انقلابی دور میں معاشرتی، سیاسی، تعلیمی، عدالتی اور اخلاقی تمام نظام ہائے زندگی نہ صرف وضع کر دیے گئے بلکہ ان پر عمل بھی کیا گیا۔ بے شک سڑکیں، پُل تعمیر کرنا وغیرہ بھی عوام کی فلاح کے لیے ہوتے ہیں لیکن اولین ترجیح عوام کی بنیادی ضرورتوں روزی، روٹی، صحت اور تعلیم کو حاصل ہونی چاہیے۔ یہ ایک حقیقت ہے جس ملک میں تمام ادارے اپنی اپنی حدود و قیود میں رہ کر کام کریں اور وہاں عدل اور احتساب کا نظام ہر خاص و عام پر لاگو ہو تو دنیا کی کوئی بھی طاقت اس ملک کو ترقی کرنے اور آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتی۔ بدقسمتی سے 76 سال میں وطنِ عزیز میں بننے والی حکومتیں عوام کو بنیادی ضرورتیں فراہم کرنے سے بھی قاصر رہی ہیں۔
چند روزہ زندگی ہے اور اگر تصورِ آخرت پر ایمان مستحکم ہو جو کہ ہر مسلمان کے ایمان کا حصّہ ہے اور یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ تم میں سے ہر کوئی نگہبان ہے اور روزِ قیامت اس کی رعیت (رعایا) کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ خاوند سے اہلِ خانہ اور حاکمِ وقت سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا۔ یہ سنہری اصول اگر ہر کوئی اپنی ذات کا حصہ بنا لے تو تمام مسائل کا حل آسانی سے مل جاتا ہے۔ خلفائے راشدین کے دور میں یہ سنہری اصول عملی طور پر کارفرما تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی اس دور کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ چاروں خلفاء نے عوام الناس کی بنیادی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ تعلیم کو بھی حددرجہ فوقیت دی ۔ حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں تو انھوں نے املا کی درستی پر بھی زور دیا۔ رات کو مدینے کی گلیوں میں گشت کرنا کہ کوئی بھوکا تو نہیں سویا۔ اپنے کندھوں پر آٹے کا تھیلا لاد کر مساکین کو دے آنا اور خوفِ آخرت کا یہ عالم کہ اکثر فرماتے کہ میرے دور میں بکری کا بچہ بھی بھوک سے مر گیا تو روزِ قیامت مجھ سے سوال کیا جائے گا۔ احتساب کا یہ عملی مظاہر ہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ ایک عام شہری خلیفۂ وقت سے سوال کرتا ہے کہ اے عمر، آپ کو کپڑا ایک ملا تھا تو مکمل سوٹ کیسے بن گیا؟ تو بیٹا جواب دیتا ہے کہ میں نے اپنا کپڑا بھی ان کو دے دیا۔
خلیفۂ وقت حضرت علیؓ یہودی کے ساتھ مقدمہ کے سلسلے میں قاضی کے دربار میں پیش ہوتے ہیں تو قاضی ادب میں کھڑا ہو جاتا ہے تو حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ یہ تمھاری پہلی بے انصافی ہے۔ وطنِ عزیز کی 76 سالہ تاریخ میں حکومتوں چاہے وہ آمرانہ ہوں یا ’جمہوری‘ نے عوام کو کبھی کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔ آئین کی زبانی طور پر بھی پاسداری کے دعوے کیے جاتے ہیں مگر عوام کے مسائل کو پسِ پشت ڈال کر حکمران طبقہ ذاتی مفادات کو ترجیح دیتا رہا ہے او رقانون سازی جو کہ عوام کے لیے ہونی چاہیے تھی اس میں بھی ذاتی مفادات کو پیشِ نظر رکھا جاتا ہے۔ احتساب کا تو سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ عوام کو جان بوجھ کر تعلیم سے دور رکھا جا رہا ہے۔ اگر آغاز میں ہی قومی زبان اردو میں تدریس کا عمل جاری ہوتا تو آج آدھی سے زیادہ عوام تعلیم یافتہ اور باشعور ہوتی۔
عدل، معاشرت، سیاست اور تعلیم کے میدان میں شاید ہم بہت ہی پیچھے رہ گئے ہیں۔ عدل اور احتساب نہ ہونے کے باعث آج عوام مہنگائی کی چکی میں پِس رہے ہیں۔ عدل اور احتساب کا نظام نہ ہونے کے باعث دولت چند اشرافیہ کے ہاتھوں میں چلی گئی ہے جس کے باعث ملک کو چلانے کے لیے حکمران طبقہ جو بھی آتا ہے وہ مزید قرضے لیتا ہے جس کا اثر صرف اور صرف عام شہری پر پڑتا ہے اور اس کی زندگی مفلوج ہو کر رہ جاتی ہے۔ سبھی حکمران لوٹ کھسوٹ کرتے ہیں اور ملبہ ایک دوسرے پر ڈال کر خود کو سرخرو کر لیتے ہیں۔ سزا کا تو ہمارے ہاں تصور ہی نہیں۔ ہاں قانون بھی صرف عام شہری کے لیے حرکت میں رہتا ہے۔ سانحۂ ماڈل ٹائون ہو یا 9 مئی کے ناخوشگوار واقعات ہوں اگر سب کو قانون کے مطابق سزائیں ہوں تو آئندہ کوئی ایسی جرأت بھی نہیں کرے گا۔
عام شہری مہنگائی کا بوجھ برداشت نہیں کر پا رہا۔ اس کی چیخیں بھی شاید دب کر رہ گئی ہیں۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود آٹا، گھی بھی عام آدمی کی دسترس سے باہر ہے۔ تعلیم، صحت اور بجلی کا تو رونا ہی الگ ہے۔ اگر کرپشن کی سزا کم از کم موت مقرر ہو تو یقین کریں لوٹ کھسوٹ کی کسی میں ہمت بھی نہ ہو۔ اب صورتحال یہ ہے کہ چند اشرافیہ تو اربوں پتی ہیں اور عوام کا جینا بھی ادوبھر ہو گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ عوام کے مسائل حل کرے گا کون؟ اور کب کرے گا؟ ہر نیا آنے والا حکمران طبقہ اس قدر عوام کو تکلیف دیتا ہے کہ لوگ پچھلے ظالم حکمران کو اچھا کہنا شروع کر دیتے ہیں۔ الیکشن منصفانہ ہوں ہر سیاسی پارٹی کو الیکشن میں حصہ لینے کا حق ہو پھر جس کو بھی عوام پسند کریں اسے حکومت دے دی جائے۔ اسے پانچ سال پورا موقع دیا جائے۔ اس کی کارکردگی کی بنا پر اگلی بار عوام کو اسے قبول یا رد کرنے کا مکمل اختیار دیا جائے۔ درحقیقت جمہوریت پنپنے کا طربقہ بھی یہی ہے۔ زبردستی حکومت بنانے یا ختم کرنے سے کبھی بھی عوام کے مسائل حل نہیں ہوں گے اور عوام یوں ہی تڑپتے اور سسکتے رہیں گے۔